روش کمار
’’ٹیسلا‘‘ بالآخر ہندوستانی مارکٹ میں داخل ہو ہی گئی۔ ارب پتی ایلون مسک کی زیرقیادت الیکٹرانک وہیکلس تیار کرنے والی اس کمپنی نے ممبئی میں اپنے پہلے شوروم کا افتتاح بھی کرچکیہے۔ یہ شورم ممبئی کے میکر میاک سٹی مال میں کھولا گیا ہے۔ چیف منسٹر مہاراشٹرا دیویندر فڈنویس نے ممبئی میں ٹیسلا کے داخلے کا گرمجوشانہ خیرمقدم کیا اور اس کی زبردست ستائش کی۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ٹیسلا ہے یا ’’ٹیکس لا‘‘ ہے؟ ’’ٹیکس لا کیا ہے، کار آئی ہے ٹیسلا کی اور چرچا ہورہی ہے ’’ٹیکس لا‘‘ کی ۔ ٹیسلا کا نیا نام ہے ٹیکس لا۔ کیونکہ جو کار امریکہ اور آسٹریلیا میں 32 سے 35 لاکھ میں مل جاتی ہے، وہی کار ہندوستان میں ٹیکس کی وجہ سے 61 لاکھ روپئے میں ملے گی، سی این بی سی کو ٹیسلا کے چیف فینانشیل آفیسر نے کہا ہے کہ اس کی قیمت میں EV امپورٹ پر 70% Tariffs ہے اور 30% لکژری ٹیکس شامل ہے۔ ٹیسلا کے بارے میں بات کرنے کیلئے ویسے کچھ بھی نیا نہیں ہے کیونکہ اس کار کی چرچہ کئی سال سے دنیا بھر میں چل رہی ہے مگر نئی بات یہ ہوئی ہے کہ ٹیسلا کے بہانہ ہندوستان میں میں کار پر عائد ہونے والے ٹیکس کی بات ہونے لگی۔ روڈ ٹیکس اور ٹول ٹیکس کی بھی بات ہونے لگی ہے۔ الگ الگ ریاستوں میں RTO ٹیکس کی بھی بات ہونے لگی ہے۔ کہاں تو ایلون مسک کی تصویر لگاکر خیرمقدم ہونا چاہئے تھے لیکن memes بننے لگے ہیں۔ نرملا سیتا راجن کا کئی دنوں سے وزیر فینانس چرچہ میں نہیں تھیں لیکن ٹیسلا کی وجہ سے ٹیکس اور نرملا کی چرچہ بڑھ گئی ہے۔ memes کی دنیا میں ان کی شاندار واپسی ہوگئی۔ ایک meme میں تو ہمیں نہرو جی بھی ملے۔ ٹیسلا کے شوروم میں پوچھتے ہوئے کہ مجھے اتنا ٹیکس کیوں دینا پڑ رہا ہے تو مینیجر وزیر فینانس نرملا سیتا رامن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے وہ آپ کو ان سے پوچھنا ہوگا تو فل مستی اور مسخرہ پن چل رہا ہے اور سب کو پتہ ہے کہ ٹیکس پر کتنے ہی meme بنادو، ٹیکس دینا پڑے گا۔ ہندوستان میں متوسط طبقہ کی کوئی حیثیت نہیں بچی ہے۔ اس کی بات صرف مذہبی معاملہ میں اور وہ بھی جب وہ مذہب کی بنیاد پر دوسرے مذہب سے نفرت کرتا ہے تب ہی سنی جاتی ہے۔ ٹیکس کے معاملے میں متوسط طبقہ کی بات سنی جاتی ہے تو اسے meme کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مسئلہ ٹیکس کا ہے لیکن اتنا پرچار ہوگیا ہے کہ کوئی ٹیسلا خرید بھی لے گا تو اپنا چہرہ چھپانے لگ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیسلا کے آنے سے پہلے جس طرح کا ماحول بنایا جارہا تھا، آج آنے کے بعد ویسا ماحول نہیں بنا۔ اتنا چرچہ ہے کہ 32 لاکھ روپئے کی کار پر 29 لاکھ ٹیکس عائد کیا گیا ہے اور یہ کار کوئی خریدے گا بھی تو دوستوں کو دکھانے نہیں جائے گا۔ دوست ہی ہنسنے لگ جائیں گے۔ بات پیسے کی نہیں ہے کہ اس کے پاس پیسہ ہے، آپ کسی کار پر قیمت کے برابر ٹیکس دیں گے تو اسمارٹ صارف کبھی نہیں کہلائے جائیں گے۔ فالتو اور عیاش کا لیبل آپ پر چسپاں کردیا جائے گا اور وہ سطح آپ کو پسند ہے۔ تو وہ بات الگ ہے۔ ممبئی میں ایک شوروم کھلا ’’ٹیسلا‘‘ کی اتنی حیثیت تو ہے کہ اس شوروم کے افتتاح کے لئے ہندوستان کی بڑی ریاستوں میں سے ایک مہاراشٹرا کے چیف منسٹر دیویندر فڈنویس پہنچ گئے۔ فڈنویس نے کہا کہ ٹیسلا صرف کار نہیں صرف کار کمپنی نہیں، جذباتی ہوکر بتانے لگ گئے کہ 2015ء میں پہلی بار امریکہ میں ٹیسلا کی سواری کی تھی اور تب ہی سوچا تھا کہ ایک دن یہ کار ہندوستان کی سڑکوں پر دوڑے گی۔ افتتاحی تقریب میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان میں ہی ریسرچ ڈیولپمنٹ اور پیداوار ہو، مجھے امید ہے کہ صحیح وقت پر ٹیسلا اس کے بارے میں سوچے گی۔ آتما نربھر (خودمکتفی) ہندوستان میں ٹیسلا کا شوروم کھلا ہے، چیف منسٹر اپنے سپنے کو پورا ہونے کا بتانے لگ گئے لیکن عوام اس بحث میں الجھ گئی کہ یہ کار خریدے گا کون؟ آپ جھٹ سے کہیں گے جس کے پاس پیسہ ہوگا، وہی خریدے گا، لیکن پیسے والا ہی کیوں خریدے گا؟ کیا پیسے والے کے پاس دماغ نہیں ہوتا؟ یہ کوئی مہنگے برانڈ کی گھڑی نہیں ہے جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں، ٹیسلا کے بارے میں زیادہ بڑی تعداد میں لوگ جانتے۔ آپ کوئی چیز خریدتے ہیں تو وہ چیز آپ کی پہچان کا حصہ بنتی ہے تب بھی آپ برانڈ کی چیزیں خریدتے ہیں، اس کی قیمت ادا کرتے ہیں، لیکن ایسا برانڈ کیا آپ لینا چاہیں گے جس سے خریدتے ہی لوگ آپ کی عقل پر سوال کرنے لگ جائیں۔ اچھا صارف ہوشیار صارف تو وہی کہلاتا ہے جو کسی بھی چیز کا صحیح دام دیتا ہے، اس کا تعلق مہنگا یا سستا سے نہیں ہر ہر فرد اپنی استطاعت کے مطابق اچھی چیزیں خریدتا ہے تب ہی جاکر سینہ پھلاتا ہے۔ ممبئی کے باندرہ کرلا کامپلیکس کے میکر میک سٹی مال شوروم میں ٹیسلا کی Y ماڈل کی دو گاڑیاں لانچ ہوئی ہیں۔ کافی وقت سے ہندوستان میں ٹیسلا کا انتظار ہورہا تھا لیکن اب جبکہ اس کی گاڑیاں آگئی وہ اتنی مہنگی ہے کہ لوگ ٹوئٹر پر لکھ کر ایلون مسک کو بتارہے ہیں کہ ہم آپ کی گاڑی نہیں خرید سکتے، ٹیسلا کا نام بدل کر آپ ٹیکس لا کر دیجئے۔
اُڈیشہ میں طالبہ سومیا شری کی موت : اوڈیشہ کی سومیا شری کی موت کا معاملہ کیا ہے، کیا بروقت کارروائی کی گئی ہوتی تو سومیا شری کی جانچ بچ سکتی تھی۔ 6 ماہ سے وہ شکایت کرتی رہی کہ کالج کے پروفیسرس اس کا جنسی استحصال کررہے ہیں۔ سومیا نے کالج کے پرنسپل آفس کے سامنے خود کو آگ لگالی اور نہیں بچ سکی۔ سومیا معاملے کو لے کر 15 جولائی کو راہول گاندھی نے ایک ٹوئٹ کیا جسے لے کر ہمارے ملک کے وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان سیاست نہ کرنے کا انہیں مشورہ دے رہے ہیں۔ ہم اس لئے بھی اس کہانی کی شروعات سیاسی لحاظ سے کررہے ہیں، کیونکہ کانگریس اور بی جے پی ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے بہانے سیاست کی ایک بڑی خامی کو اجاگر کررہے ہیں۔ 15 جولائی کو راہول گاندھی نے ٹوئٹ کیا ہے کہ اُڈیشہ میں انصاف کیلئے لڑتی ایک بیٹی کی موت، سیدھے سیدھے بی جے پی کے سسٹم کے ذریعہ کیا گیا قتل ہے۔ اس بہادر طالبہ نے جنسی استحصال کے خلاف آواز آٹھائی لیکن انصاف دینے کے بجائے اسے دھمکایا گیا۔ شرمسار کیا گیا۔ بار بار توہین کی گئی جنہیں اس کی حفاظت کرنی تھی ، وہی اسے توڑتے رہے، ہر بار کی طرح بی جے پی کا سسٹم ملزمین کو بچاتا رہا اور ایک معصوم بیٹی کو خود کو آگ لگانے پر مجبور کردیا۔ یہ خود سوزی نہیں، سسٹم کے ذریعہ کیا گیا قتل ہے۔ راہول گاندھی کے اس ٹوئٹ پر مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے بھی جواب دیا۔ اگر وہ اس بات کا جواب دیتے ہیں کہ بی جے پی کا سسٹم سومیا کی کس طرح سے مدد کررہا تھا، اس کی شکایت پر بروقت کیسے کارروائی کی جارہی تھی۔ بالیشور کے رکن پارلیمنٹ نے اس معاملے میں کوشش کی یہ سب بتاتے تو بات ٹھیک رہی کیونکہ راہول گاندھی کا الزام ہے کہ سومیا کی موت کیلئے بی جے پی کا سسٹم ذمہ دار ہے۔ سسٹم نے بے عزت کیا اور اس کا قتل کیا۔ ان باتوں پر جواب نہ دیتے ہوئے دھرمیندر پردھان اپنے ٹوئٹ میں لکھتے ہیں کہ راہول گاندھی اور کانگریس کا اوڈیشہ کی بیٹی کے ساتھ ہوئے دردناک واقعہ پر اوچھی سیاست کرنا بدبختانہ ہے۔ یہ ایک سنگین اور جذباتی معاملہ کو سیاسی ہتھیار بنانا ہے۔ راہول گاندھی کی سستی شہرت حاصل کرنے سے متعلق ذہنیت کو واضح کرتا ہے ۔ اُڈیشہ کے واقعہ نے پورے ملک کو جھنجھوڑ دیا ہے لیکن کانگریس نے اُسے بھی اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کا موقع بنالیا۔ کیا بی جے پی کے پاس کوئی کتاب ہے کہ کب سیاست کریں، کب نہ کریں، کیا وہ خود رہنمایانہ خطوط پر عمل کرتی ہے کہ کب سیاست کریں گے اور کب نہیں کریں گے۔ ڈالر کے آگے روپئے کی قدر گھٹنے لگ جائے تو بی جے پی وزیراعظم سے جوڑ دیتی ہے (اپوزیشن وزیراعظم کی صورت میں) اور جب ان کی حکومت میں روپئے کی قدر زیادہ گرجائے تو کہتی ہے کہ اس پر سیاست نہ کی جائے اور سوال پوچھنے پر جواب ہی نہ دیا جائے۔