کنگس ٹاؤن ۔ ٹی20 ورلڈ کپ 2024 میں افغانستان کی ٹیم نے جو کچھ کیا وہ کسی کرشمہ سے کم نہیں۔ کرشمہ کیونکہ کہا جاسکتا ہے اس لئے کہ کسی کو بھی امید نہیں تھی کہ راشد خان کی ٹیم ٹورنمنٹ میں اس حد تک پہنچے گی۔ وہ بھی اس گروپ میں رہتے ہوئے جس کے پاس آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم ہے لیکن افغان کھلاڑیوں نے آسٹریلیا کو نہ صرف شکست دی بلکہ ٹورنمنٹ سے باہر ہونے کی وجہ بھی بن گئی۔ افغانستان کو سیمی فائنل کا ٹکٹ ملنے کی وجہ سے آسٹریلیا کو ٹورنمنٹ کے سوپر ایٹ سے وطن واپس لوٹنا پڑا۔ افغان ٹیم کی کامیابی پر ان کے ملک میں جشن کا سماں ہے۔ افغانستان میں کرکٹ شائقین اپنی ٹیم کے پہلی بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے کے بعد سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ شائقین کا ایک بڑا ہجوم ٹیم کی کامیابی کے جشن میں ڈوبا ہوا ہے۔ رنگ اڑ رہے ہیں۔ گلال اڑ رہا ہے۔ افغانستان کی فضاؤں میں ہر رنگ ملا ہوا ہے۔ ایسا ہونا فطری ہے کیونکہ 25 جون کی تاریخ افغانستان کرکٹ کی کتاب میں سنہرے الفاظ میں لکھی گئی ہے۔ افغانستان کے لیے اس سے بڑی اور بے مثال کامیابی کی کہانی ابھی تک نہیں لکھی گئی۔ افغانستان کی کامیابی پر اسٹیڈیم سے سڑک پر لوگ جشن میں ڈوبے نظر آئے۔ افغان ٹیم کے کرکٹرز نے بھی اپنی کامیابی کا تہہ دل سے جشن منایا۔ بنگلہ دیش کے آخری وکٹ کے ساتھ میدان میں اترنے والے افغانستان کے کھلاڑی بالکل ویسا ہی تھا جیسا کہ 2007 میں پہلا ٹی20 ورلڈ کپ جیتنے کے بعد ٹیم انڈیا کو دیکھا تھا۔ ٹی20 ورلڈ کپ 2024 کے سیمی فائنل کے ٹکٹ حاصل کرنا افغانستان کے کھلاڑیوں کے لیے بھی ایک جذباتی لمحہ تھا۔ اوپنراور ٹورنمنٹ کے ٹاپ اسکورر رحمان اللہ گرباز ٹیم کی جیت کے ساتھ ہی رو پڑے۔ ان کے رونے کی تصویریں میدان میں نصب کیمروں نے قید کیں۔ ایک طرف گرباز کے آنسو تھے تو دوسری طرف میدان میں جشن کا سماں تھا، جسے دیکھتے ہوئے ٹیم انڈیا نے 2011 کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد جشن کی تصویریں دہرانے لگیں۔ افغان کھلاڑی اپنے کپتان راشد خان اور کوچ جوناتھن ٹروٹ کو کندھوں پر اٹھائے ہوئے نظر آئے، جس طرح 2011 میں ہندوستانی کھلاڑیوں نے سچن ٹنڈولکر اور گیری کرسٹن کو کندھوں پر اٹھا کر میدان میں گھومتے رہے۔