ٹی آر ایس : زوال کے دستک کا اِنتظار

   

Ferty9 Clinic

خیر اللہ بیگ

تلنگانہ/ اے پی ڈائری
ٹی آر ایس نے سیاسی مقصد کے حصول کے لیے اب تک جو بھی عملی اقدامات کئے ہیں وہ عوام پر ریاستی حکومت کا جبر ہے ۔ شہریوں کی آہوں سے بے خبر کے سی آر کو کانگریس کے حشر سے سبق لینے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی بصیرت رکھنے والے تلگو دیشم لیڈر چندرا بابو نائیڈو کے بھی سیاسی زوال کو مد نظر رکھیں تو ٹی آر ایس حکومت کو کچھ اچھے کام کرنے کی ترغیب ملے گی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر پارٹی اور ہر لیڈر اپنے دور اقتدار کو ہی غیر مختتم دور سمجھنے لگتا ہے ۔ اس کی خرابیوں اور نادانیوں سے اٹھنے والے طوفان کل اگر اس کی قسمت پر دستک دے تو پھر وہ بھی عوام کی نفرت کا شکار ہوجائے گا ۔ کے سی آر بھی ایک تجزیہ کار لیڈر ہیں وہ اس امر سے نا آشنا نہیں ہوں گے کہ عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا تو سیاسی زوال یقینی ہوجاتا ہے ۔ ’پھر مجھے آئی نہ جگ سے لاج ، میں اتنا زور سے ناچی آج کے گھنگرو ٹوٹ گئے ‘کہہ کر فارم ہاوز میں روپوش ہوجانا پڑے گا ۔ ٹی آر ایس قائد کی یہ کشتی ستم ظریفی ہے کہ وہ اپنے بدنام لیڈروں کو اہم عہدے دے کر ٹی آر ایس کی نیک نامی کو آگ لگا رہے ہیں ۔ ٹی آر ایس لیڈر کونیرو کرشنا کو جنہوں نے جون میں ایک خاتون فاریسٹ رینج آفیسر پر ہجومی تشدد کی قیادت کی تھی انہیں اس واقعہ کے تین ماہ بعد ضلع پریشد کا وائس چیرمین بنایا گیا ۔ اس لیڈر نے ضلع آصف آباد کے کاغذ نگر سرسلہ میں سی انیتا نامی فاریسٹ رینج آفیسر پر حملہ کیا تھا ۔ لیڈر نے لاٹھی سے خاتون آفیسر کو شدید زد و کوب کیا تھا ۔ جس کے بعد کرشنا کے بشمول 14 افراد کے خلاف کیس درج رجسٹر کر کے کئی دفعات کے تحت کارروائی کی گئی تھی لیکن اب انہیں دوبارہ ضلع پریشد میں لایا گیا ہے ۔ زخمی ہونے والی خاتون آفیسر کو انصاف نہیں ملا ۔ اس واقعہ کے فوری بعد ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں کونیرو کرشنا کو خاتون عہدیدار پر حملے کرنے والے ہجوم کی قیادت کرتے ہوئے بتایا گیا تھا ۔ اس کے فوری بعد اس وقت کے وزیر کے ٹی راما راؤ نے اس حملے کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ خاطیوں کو سزا ملے گی اور قانون سے کوئی بالاتر نہیں ہے لیکن حالیہ بجٹ سیشن میں کے سی آر نے حملہ کرنے والے کرشنا کی ستائش کی اور کہا کہ وہ ایک اچھے انسان ہیں ۔ جنہوں نے نہ صرف اس علاقہ میں گریجنوں کو بچایا ہے بلکہ وہ اس واقعہ کے پیچھے کی حقیقت کو معلوم کرنے کے لیے پرجا دربار بھی لگانے کا مشورہ دے چکے ہیں ۔ کے سی آر کے دور میں یہ کیا ہورہا ہے یہاں تو ساری کہانی ہی الٹ گئی ہے ۔ کہاں وہ عہدیدار جو لیڈر کے ہاتھوں زخمی ہوئے اپنے فرض کو پورا کرنے کی کوشش کی ۔ اس کو حکومت سے شاباشی نہیں ملی اور نہ ہی ترقی دی گئی ۔ ٹی آر ایس حکومت کے خلاف سرکاری ملازمین میں ناراضگی پیدا ہوجائے تو پھر ٹی آر ایس کے خلاف ووٹ دینے میں دیر نہیں لگے گی ۔ ٹی آر ایس کے سربراہ کو ایک کے بعد دیگر جھٹکے لگ ہی رہے ہیں ۔ ان کے منصوبوں پر پانی پھیرتے ہوئے ہائی کورٹ نے سکریٹریٹ کی قدیم عمارت کو منہدم کرنے سے روک دیا ہے ۔ 400 کروڑ روپئے کی لاگت سے پرانی سکریٹریٹ کی عمارت کی جگہ نئی عمارت بنایا جانے کا عزم مسمار ہوجائے تو کے سی آر کے لیے یہ شدید دھکہ ہوگا ۔ عدالت نے تلنگانہ راشٹرا سمیتی زیر قیادت حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ پرانی عمارت کو ہاتھ نہ لگائے اس کیس کی سماعت اب دسہرہ کی تعطیلات کے بعد ہوگی ۔ عدالت کی یہ ہدایت اس وقت آئی جب کے سی آر نے پرگتی بھون میں کابینی اجلاس طلب کر کے نئے سکریٹریٹ کے لیے سنگ بنیاد رکھنے کا مبارک دن مقرر کرنے کا فیصلہ کیا جاسکے ۔ عدالت نے کے سی آر کے توہم پرستانہ اقدام کو فی الحال کچھ وقفہ کے لیے روک لگادی ہے لیکن قدیم عمارت کو گرانے سے باز رکھنے کے لیے قانون کو اپنا کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ چیف منسٹر کی ہدایت پر عہدیداروں نے تمام محکموں کو اس عمارت سے دیگر عمارتوں کو منتقل کردیا ہے ۔ اس دوڑ دھوپ میں سارے محکمے پریشان رہے اور کام کاج بھی متاثر ہوا ۔ یہ تمام خرابیاں صرف نہ سمجھی کی حرکتوں کا نتیجہ ہیں ۔ کئی اسکالرس نے یہ بات خوب کہی ہے کہ معاشرہ صرف اسی وقت ترقی کرسکتا ہے جب حکمراں طبقہ سمجھ دار ہو ۔ عوام کو جذباتی نعروں سے بہلانے والے لیڈر عوام کی ٹیکس کی شکل میں حاصل کردہ رقم کو من مانی طریقہ سے خرچ کر کے لوٹ مار شروع کردیتے ہیں ۔ تلنگانہ حاصل کرنے کے لیے جو جو وعدے کئے گئے تھے اور بیروزگار نوجوانوں سے لے کر طلباء برادری کو جو خواب دکھائے گئے تھے ان خوابوں کی تعبیر میں ناکام کے سی آر حکومت روزگار فراہم کرنے کے ایسے پروپگنڈہ شروع کردئیے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹی آر ایس حکومت نے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کا عمل دیانتداری سے کیا ہے ۔ حکومت نے سرکاری اسکولوں میں 18,178 ودیا والینٹرس کے تقرر کا اعلان کیا ہے ۔ باقاعدہ اساتذہ کے تقررات کے وعدوں کو بالائے طاق رکھ کر وقتی طور پر ودیا والینٹرس کا تقرر عمل میں لانے کا جی او جاری کرنا ان بیروزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے شدید دھکہ جنہوں نے تلنگانہ کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد میں شدت پیدا کی اور کے سی آر کے ہاتھ مضبوط کئے ۔ اب یہی کے سی آر ودیا والینٹرس کے نام پر عارضی ملازمین فراہم کررہے ہیں ۔ ماہانہ 12000 تنخواہ پر ودیا والینٹرس کا تقرر کرتے ہوئے یہ حکومت نئے اساتذہ کے تقرر تک یوں ہی سطحی کام کرنے کا مظاہرہ کرے گی ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سابق میں جن نوجوانوں کو ودیا والینٹرس کے طور پر ملازمت دے کر تنخواہوں سے محروم رکھا گیا ۔ ان عارضی اساتذہ کو اعزازی مشاہیر نہیں دیا گیا ۔ یہ بھی المیہ ہے کہ کے سی آر حکومت نے کئی اساتذہ تنظیموں کے احتجاج کو بھی خاطر میں نہیں لایا ۔ اساتذہ کو دی جانے والی معمولی تنخواہ کے بقایا جات کی ادائیگی کے لیے جب حکومت تیار نہیں ہے تو وہ نئے ودیا والینٹرس کا تقرر عمل میں لاکر سابق ودیا والینٹرس کی تنخواہ کو ہڑپ کرلینے کی فراق میں ہے ۔ سیاستداں اکثر اوقات نا اہل اور غیر معیاری ہوتے ہیں لیکن کے سی آر کے اندر قابلیت کو دیکھ کر ہی تلنگانہ عوام نے انہیں نئی ریاست کی باگ ڈور حوالے کی تھی۔ اس لیے تلنگانہ عوام کے تاریخی فیصلہ اور فعال کردار کو یوں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے ۔ تلنگانہ سے کرپٹ آندھرائی قائدین کا زمانہ ختم کر کے کے سی آر نے ریاست کی دولت اور اختیارات کو اپنے حق میں کرلیا اور عام آدمی کو فراموش کردیا ۔ تلنگانہ کے حصول میں حصہ لے لینے والے ان محنت کشوں کی اکثریت اب بھی اس غفلت میں ہے کہ کے سی آر ان کے لیے کام کریں گے ۔ یہ لوگ اس حکومت کی جانب سے کئے جانے والے استحصال کی تفصیلات سے بھی واقف نہیں ہیں ۔ یہ لوگ اپنے آپ میں میں مگن ہیں ۔ اپنے آپ میں مگن ہونے کا مطلب ہے کہ اردگرد کے طمع سے آلودہ حکومت کے افعال کی بھی خیر نہ ہو ۔ آپ تھوڑا سا بھی غور کریں تو یہ واضح ہوجائے گا کہ تلنگانہ میں اس وقت کون مزے کررہا ہے ۔٭
[email protected]