دوسری مرتبہ مسلسل کامیابی کا یقین، حریف امیدواروں کی ٹی آر ایس میں شمولیت سے اطمینان
حیدرآباد۔ گریٹر بلدی انتخابات میں اگرچہ کئی رشتہ دار انتخابی میدان میں ہیں لیکن ٹی آر ایس پارٹی سے ایک جوڑا مقابلہ کرتے ہوئے عوام اور میڈیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ مختلف پارٹیوں سے آپس میں رشتہ دار قائدین کے مقابلہ کرنے کا رجحان کوئی نئی بات نہیں لیکن ٹی آر ایس نے مسلسل دوسری مرتبہ شوہر اور بیوی کو دوبارہ امیدوار بنایا ہے اور انہیں دوسری مرتبہ کامیابی کا یقین ہے۔ جگدیشور گوڑ مادھا پور ڈیویژن سے جبکہ ان کی اہلیہ پوجیتا گوڑ حفیظ پیٹ ڈیویژن سے مقابلہ کررہی ہیں۔ 2006 میں منتخب ہونے کے بعد اپنے اپنے حلقوں میں انجام دیئے گئے کاموں کی تفصیلات اور وارڈ کی ترقی کے منصوبے کو پرنٹ کراتے ہوئے وہ رائے دہندوں میں تقسیم کررہے ہیں۔ دونوں وارڈز میں پانی کی سربراہی اور ٹریفک اہم مسائل ہیں۔ سلم علاقوں اور متوسط طبقات کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ جگدیشور گوڑ نے بتایا کہ 2016 سے قبل علاقہ میں ٹریفک کے کئی مسائل تھے لیکن 44 کروڑ کی لاگت سے انڈر پاس تعمیر کیا گیا۔ اس کے علاوہ انفراسٹرکچر پراجکٹس کی تکمیل کی گئی جس کے نتیجہ میں ٹریفک مسائل میں کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مانجرا سے پانی کی سربراہی کی پائپ لائن بچھائی گئی ہے جس پر 25 کروڑ روپئے لاگت آئی ہے۔ حلقہ میں ڈرینج ، سڑکوں اور دیگر مسائل کی یکسوئی کی گئی۔ گوڑ نے 2016 میں ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کی اور وہ تیسری مرتبہ مقابلہ کررہے ہیں جبکہ ان کی اہلیہ دوسری مرتبہ انتخابی میدان میں ہیں۔ 2009 میں جگدیشور گوڑ نے حفیظ پیٹ سے کانگریس امیدوار کی حیثیت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ وارڈز کی ازسر نو حد بندی کے بعد مادھا پور اور حفیظ پیٹ ڈیویژن تشکیل دیئے گئے جس کے بعد انہوں نے اپنی اہلیہ کیلئے ٹکٹ حاصل کیا اور دونوں نے کامیابی حاصل کی۔ انہیں یقین ہے کہ دوسری مرتبہ بھی عوام کی تائید حاصل ہوگی۔ جگدیشور گوڑ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں دو مرتبہ رکن رہ چکے ہیں۔ 2016 میں تلگودیشم مادھا پور میں دوسرے نمبر پر رہی۔ اسوقت تلگودیشم سے مقابلہ کرنے والے قائد نے ٹی آر ایس پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے لہذا حلقہ میں ٹی آر ایس کی کامیابی اور آسان دکھائی دے رہی ہے۔ کانگریس امیدوار جی رادھا کرشنا یادو جو مسلسل تیسری مرتبہ مقابلہ میں ہیں اس مرتبہ بی جے پی کے امیدوار ہیں۔ حفیظ پیٹ میں کانگریس کو دوسرا مقام حاصل ہوا تھا لیکن وہ امیدوار بھی ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔