ٹی آر ایس کے رویہ میں تبدیلی سے حکومت پر عوام کی شدید برہمی

   

طویل مدت تک تعلیمی ادارہ جات کو تعطیلات سے سیاسی جماعتوں و عدالت کی تنقیدیں
محمد مبشرالدین خرم
حیدرآباد۔20اکٹوبر۔تحریک تلنگانہ کے دوران بھی اسکولوں یا تعلیمی ادارو ںکو اتنی طویل مدت تک بند نہیں رکھا گیا تھا اور نہ ہی تحریک تلنگانہ نے مختصر مدت میں اتنی شدت اختیار کی تھی جتنی شدت آر ٹی سی ہڑتال میں پیدا ہوچکی ہے۔حکومت تلنگانہ کی جانب سے آر ٹی سی ہڑتال سے نمٹنے کے طریقہ کار پر نہ صرف یونینوں بلکہ سیاسی جماعتوں اور عدالت کی جانب سے بھی تنقیدیں کی جانے لگی ہیں اور حکومت کے رویہ کو آمرانہ قرار دیتے ہوئے یہ کہا جا رہاہے کہ ریاستی حکومت من مانی کر رہی ہے جس سے نہ صرف آر ٹی سی ‘ آرٹی سی ملازمین‘ طلبہ برادری بلکہ ریاست کے ہر طبقہ کو شدید نقصان سے دو چار ہونا پڑرہا ہے۔ تحریک تلنگانہ میں سرکاری ملازمین کو شامل کرنے کے علاوہ خانگی شعبوں کو تحریک کا حصہ بنانے کیلئے تلنگانہ راشٹر سمیتی کو کئی برس لگ گئے تھے اور ان کئی برسوں کے دوران ٹی آر ایس پر الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ جاری رہا لیکن حصول تلنگانہ کے بعد تلنگانہ راشٹرسمیتی کے رویہ میں آئی نمایاں تبدیلی کے سبب تلنگانہ عوام میں حکومت کے متعلق شدید برہمی پائی جانے لگی ہے کیونکہ 16یوم کی ہڑتال کے دوران حکومت نے جو رویہ اختیار کیا اور جس انداز میں یہ دعوی کیا گیا کہ جو ملازمین ہڑتال کا حصہ ہیں انہوں نے خود ملازمت سے برطرفی اختیار کرلی ہے اس دعوے کے بعد جو حالات پیداہوئے ہیں ریاست کے جمہوری عوام بالخصوص جن لوگوں نے تحریک تلنگانہ میں حصہ لیا تھا ان کے لئے لمحۂ فکر بن چکے ہیں اور وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان حالات کیلئے تلنگانہ کی جدوجہد نہیں کی گئی تھی ۔ تلنگانہ جہد کاروں کا کہناہے کہ متحدہ ریاست میں بھی حکومت نے اس طرح کا ظالمانہ رویہ اختیار نہیں کیا تھا بلکہ اس وقت کی حکومت کی جانب سے عدالت کے احکام کی پابندی کے علاوہ عوامی احتجاج جمہوری دائرہ میں اجازت دی جاتی رہی ہے لیکن موجودہ حکومت کی جانب سے نہ ہی عوام کو احتجاج کی آزادی فراہم کی جا رہی ہے اورنہ ہی عدالتی احکامات کا احترام کیا جا رہاہے۔ تلنگانہ ہائی کورٹ نے حکومت تلنگانہ کو اس بات کی واضح ہدایت دی تھی کہ حکومت 19 اکٹوبر کو صبح 10:30سے ہڑتالی ملازمین کے ہمراہ مذاکرات شروع کرنے کے احکام دیئے تھے لیکن زائد از 36گھنٹے بعد بھی حکومت کی جانب سے اس سلسلہ میں کوئی پہل نہ کئے جانے پر ایسا کہا جا رہاہے کہ حکومت عدالت کے احکام کی توہین کی ہے کیونکہ جے اے سی کے راضی ہونے کے باوجود کوئی مذاکرات شروع نہیں کئے گئے جبکہ عدالت نے مذاکرات تین دن تک جاری رکھتے ہوئے نتیجہ سے عدالت کو واقف کروانے کی بھی ہدایت دے چکی تھی ۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے جو موقف اختیار کیا گیا ہے اس کے متعلق عہدیداربھی ششدر ہیں کیونکہ عدالت کے احکام کے بعد تصور کیا جا رہاتھا کہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کے عمل کو شروع کردیا جائے گا لیکن حکومت کے گوشوں کا استدلال ہے کہ جو ملازمین برطرف ہیں ان سے مذاکرات کس طرح کئے جائیں جبکہ عدالتی احکا م کے مطابق حکومت کو ہڑتالی ملازمین سے مذاکرات کی ہدایت دی گئی ہے۔ تحریک تلنگانہ کو عوامی حمایت حاصل ہونے میں کئی برس لگ گئے لیکن آر ٹی سی ملازمین کو بند کے دوران حاصل ہونے والی تائید نے ان کے حوصلوں میں اضافہ کیا ہے۔