مجلس ٹی آر ایس دوستی سے برسر اقتدار پارٹی کیلئے نقصاندہ، مجلس و بی جے پی کیلئے فائدہ مند
حیدرآباد :۔ حیدرآباد کے بلدی انتخابات میں تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو سیاسی دوستی بی جے پی کے لیے سب سے بڑا انتخابی موضوع بن گیا ہے ! ٹی آر ایس کی مجلس سے دوستی خود ٹی آر ایس کے لیے نقصان دہ اور مجلس و بی جے پی کے لیے فائدہ مند تصور کی جارہی ہے ۔ انتخابی ماہرین اور شہریوں کا خیال ہے کہ کے سی آر کی مجلس کو ساتھ رکھنے کی پالیسی بلدی چناؤ میں ان کی بربادی کا سبب بن سکتی ہے ۔ چونکہ دوباک حلقہ اسمبلی میں کامیابی کے بعد بی جے پی کے حوصلے بلند ہوچکے ہیں اور گریٹر حیدرآباد کے بلدی انتخابات پر بی جے پی کی مرکزی قیادت نظر رکھے ہوئے ہے ۔ دوباک کا حوصلہ اور بہار کا تجربہ دونوں ہی گریٹر حیدرآباد میں آزمائے جائیں گے ۔ ایسی صورت میں کے سی آر کا مجلس کو اپنے کندھوں پر بٹھانا ان کی معذوری کا سبب بن سکتا ہے ۔ ترقی کے نعرہ کے ساتھ قوم پرستی فرقہ پرستی کے نعرہ سے پر جوش بی جے پی کے تیور صاف طور پر اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ بی جے پی ۔ مجلس ۔ ٹی آر ایس دوستی کا فائدہ اٹھائے گی ۔ اس بات سے ٹی آر ایس کے اقلیتی قائدین بھی پریشان ہیں ایک طرف پارٹی کے لیے مشکلات کے علاوہ خود اپنے مستقبل کو لے کر کافی فکر مند ہیں۔ چونکہ سابق کی طرح مجلس کی محبت میں انہیں موقع حاصل نہیں ہوا ۔ اور اس مرتبہ بھی ان کی امیدوں پر پانی پھرنے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں ۔ مخالفین کی سیاسی سازشوں کا منہ توڑ جواب دینے اور عین وقت پاسہ بدلتے ہوئے بازی کو اپنے موقف میں کرنے کے لیے ماہر کے چندر شیکھر راؤ اس بار خود اپنی پالیسیوں میں الجھتے نظر آرہے ہیں ۔ مجلس کو دور کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے اقلیتی قائدین کو زیادہ سے زیادہ موقع فراہم کرنا ان کی پارٹی کی کامیابی کے لیے راہ ہموار کرسکتا ہے تاہم اپنے بغل بچہ جماعت کو گود سے اتارنا بھی ضروری ہوگیا ۔ تاہم اب یہ فیصلہ ان کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے ۔ دوسری طرف بی جے پی نے بہار میں کامیابی کے بعد اس فارمولہ کو شہر میں آزمانے کا ارادہ کرلیا ہے ۔ بہار کے انچارج کو شہر طلب کرلیا گیا ۔ بہار میں بی جے پی نے این آر سی اور سی اے اے کے بعد مسلمانوں کی بے دخلی اور ان کی جائیدادوں کو ہندوؤں کے حوالے کرنے کا نعرہ دے کر ہندو اکثریتی ووٹ کو متحد کیا گیا ۔ اور اب حیدرآباد میں بھی اس طرح کی آزمائش کی جائے گی اور مجلس کا رول اس عمل میں بی جے پی کے لیے ایندھن کا کام کرے گا ۔ ایسے خیالات کا شہریان حیدرآباد اظہار کررہے ہیں ۔ پارٹی کی مقبولیت اور ترقی کے لیے دن رات کام کرنے والے ٹی آر ایس کے اقلیتی قائدین کو مایوسی نے گھیر لیا ہے ۔ ٹی آر ایس مجلس کے لیے اس مرتبہ زحمت تو ہوگی ہی ساتھ ہی اقلیتی قائدین کے لیے انتخابات میں موقع ملے گا یا دھوکہ اس بات سے اقلیتی قائدین تشویش کا شکار ہیں ۔۔