سریجن رائے ، الفھد سراتیا
اٹھارویں پارلیمنٹ میں گذشتہ ایک دہے میں ایسے متعدد پہلو دیکھنے میں آئے جن کے بارے میںکہا جاسکتا ہے کہ دس برسوں کے دوران یہ پہلی مرتبہ دیکھے گئے۔ سب سے پہلی اور بڑی تبدیلی اس مرتبہ ہم نے اور سارے ملک نے دیکھی ہے وہ مضبوط اپوزیشن ہے اور جس کی قیادت ایک نڈر و بے باک قائد اپوزیشن کررہا ہے۔ گذشتہ دس برسوں میں یہی دیکھا گیا کہ حکمراں جماعت نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی جس کی بنیاد پر وہ من مانی فیصلے کرتی رہی۔ حکومت یا حکمراں جماعت نے پارلیمنٹ میں اکثریت کے زعم میں اپوزیشن کو خاطر میں نہیں لایا بلکہ سرکاری بنچس نے اپوزیشن اور اس کے لیڈروں کا مضحکہ اُڑایا لیکن اب کوئی بھی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکی اس لئے مجبوراً مخلوط یا اتحادی حکومت کا دور واپس آگیا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں یہ تبدیلیاں بہت اہمیت رکھتی ہیں جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہونے لگا ہے کہ حالیہ برسوں میں پارلیمنٹ کیسے ایک ربر اسٹامپ میں تبدیل ہوکر رہ گئی تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پارلیمنٹ میں بنا کسی بحث و مباحث کے قوانین متعارف اور منظور کروائے گئے۔
جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے ایسا لگ رہا تھا کہ ایوان میں اپوزیشن کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور اپوزیشن پوری طرح کمزور بلکہ بے جاں بن کر رہ گئی تھی۔ اگر اپوزیشن ایوان میں بیروزگاری، سرحدوں کی سلامتی یا داخلی سلامتی پر بحث و مباحث کا مطالبہ کرتی تو اکثر اس کے مطالبہ کو بڑی حقارت کے ساتھ مسترد کردیا جاتا یا پھر اس مطالبہ کو پارلیمنٹ کی کاروائی میں خلل قرار دے کر بحث و مباحث کی اجازت نہیں دی جاتی۔ 1956 میں انڈین نیشنل کانگریس کے 61 ویں سونیر سیشن کیلئے تحریر کئے گئے ایک مضمون میں لوک سبھا کے پہلے اسپیکر جی وی ماولنکر نے کہا تھا کہ ایک کامیاب پارلیمانی جمہوریت کا انحصار باہمی احترام ، جذبہ ، صبر و تحمل و ایثار اور مختلف نکات نظر کو سمجھنے کی بنیاد پر ہے۔ اس تناظر میں نائب صدرنشین راجیہ سبھا ہری ونش نارائن سنگھ کے ایک مضمون نے ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کروالی، اس مضمون کا عنوان ’’ آیا ہم نے پارلیمنٹ کا مذاق بنادیا ہے ؟ ‘‘ ہری ونش نارائن سنگھ نے اپنے مضمون میں بحث کی ہے کہ اپوزیشن نے ایک جارحانہ موقف اختیار کیا، اس معاملہ میں انہوں نے قائد اپوزیشن کے خطاب سے شروع کیا اور پھر پارلیمنٹ میں خلل پیدا کرنے والے اقدامات کا حوالہ دیا۔ انہوں نے اپنے مضمون میں سب سے پہلے اپوزیشن کو اس کے رویہ کیلئے ذمہ دار قرار دیا۔ ان کے خیال میں اپوزیشن نے غیر منصفانہ طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کے خطاب کو سننے سے انکار کردیا تاہم ہمارا یہ ایقان ہے کہ نائب صدرنشین راجیہ سبھا نے جو کچھ کہا وہ جانبدارانہ ہے اور ایسا کرتے ہوئے پارلیمانی نظیروں یا مثالوں اور پچھلے دو لوک سبھا کی کاروائیوں کو یکسر مسترد کردیا۔ حالانکہ سولہویں اور سترہویں پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا، جس انداز میں اپوزیشن کو دبایا گیا، انہیں بحث و مباحث سے روکا گیا ، من مانی قوانین متعارف کرواتے ہوئے ان کی منظوریوں کو یقینی بنایا گیا۔ وہ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں۔ مسٹر سنگھ نے اپنے مضمون میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ان توہین آمیز ریمارکس کا حوالہ نہیں دیا جس میں انہوں نے اپوزیشن ارکان کے خلاف ’’ بالک یدھی‘‘ اور Parasite (طفیلی ) جیسی اصطلاحات استعمال کئے اور ان اصطلاحات کے ذریعہ قائد اپوزیشن اور دوسرے اپوزیشن قائدین کو نشانہ بنایا۔
اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ وزیر اعظم کی تقریر میں خلل پیدا کرنا، رکاوٹیں پیدا کرنا قابل مذمت ہے ایسے ہی وزیراعظم کی موجودگی میں سرکاری بنچس کی جانب سے قائد اپوزیشن کے خطاب میں بار بار رکاوٹ ڈالنا بھی قابل مذمت ہے۔ قائد اپوزیشن کا خطاب دراصل18 ویں لوک سبھا میں کسی اپوزیشن رکن پارلیمنٹ کی پہلی تقریر تھی جب سرکاری بنچس بار بار ان کی تقریر یا خطاب میں رکاوٹ پیدا کررہے تھے۔ وزیر اعظم کو چاہیئے تھا کہ باوقار و بااحترام انداز میں اپنے پارٹی ارکان کو خلل یا گڑبڑ پیدا کرنے سے روکتے چونکہ پورے دس برسوں بعد پارلیمنٹ میں سرکاری طور پر قائد اپوزیشن کا تقرر کیا گیا، ایسے میں انہیں پورے صبر و سکون کے ساتھ سننا چاہیئے تھا۔ انہوں نے جس مسئلہ کو اُٹھایا وہ بناء کسی خلل کے سننے کا متقاضی تھا۔ انہوں نے ایوان میں جو کچھ کہا ملک و قوم کے مفاد میں تو کہا تھا، مثلاً قائد اپوزیشن نے پیپر افشاء، بیروزگاری کی بڑھتی شرح، اگنی ویر اسکام، ملک کے طول و عرض میں عدم مساوات کی بڑھتی بیماری، اقلیتوں کے ساتھ متعصبانہ، جانبدارانہ اور غیر منصفانہ سلوک پر تو بات کی‘ لیکن لوک سبھا اسپیکر نے قائد اپوزیشن راہول گاندھی کے خطاب سے ان نکات کو حذف کردیا کیونکہ یہ ایسے مسائل تھے جن کے ذریعہ حکومت شدید تنقید کی زد میں آتی ہے اور آرہی ہے، ہم مسٹر سنگھ کے اس نکتہ سے پوری طرح اتفاق کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی کاروائی یا اُمور میں اختلاف رائے کا اظہار مرکزی حیثیت رکھتا ہے تاہم یہ مقام اپوزیشن کو گذشتہ دو شرائط میں فراہم کیا گیا ہے یا نہیں ؟ اس کی بھی اچھی طرح جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔ بی جے پی جو 2014 سے اقتدار میں ہے پارلیمنٹ کے ذریعہ اہم ترین قوانین کو ختم کرنے کا ایک نمونہ قائم کیا ہے جن پر بہت کم بحث کی گئی یا بحث و مباحث ہی نہیں کئے گئے۔ بی جے پی نے اہم ترین مسائل پر مباحث سے ہمیشہ فرار اختیار کی چاہے وہ بیروزگاری کا مسئلہ ہو یا پھر منی پور میں انسانیت کو شرمسار کرنے والا تشدد یا پیپر افشاء کا معاملہ‘ بی جے پی نے ان سلگتے مسائل پر بحث کرنے سے گریز کیا، اس نے پارلیمنٹ میں ایک طرح سے وقت ضائع کیا ہے۔
16 ویں لوک سبھا (2014-19) میں ایام کار 331 دنوں سے گھٹ کر 17 ویں لوک سبھا (2019-2024) میں 274 ہوگئے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی دوسری میعاد میں جو بلز منظور کئے گئے ان میں سے نصف سے زیادہ بلز دو گھنٹوں سے بھی کم مباحث کے ذریعہ منظور کرلئے گئے اور صرف 16 فیصد بلز اسٹانڈنگ کمیٹی کے حوالے کئے گئے۔ اس کے علاوہ 17 ویں پارلیمنٹ میں ایک ایسا بھی واقعہ پیش آیا تاریخ میں جس کی نظیر نہیں ملتی وہ واقعہ دراصل 146 اپوزیشن ارکان کی معطلی ہے، انہیں 2023 میں سرمائی اجلاس کے دوران معطل کیا گیا اور ان ارکان پارلیمان نے جو سوالات کئے ان میں تقریباً 290 سوالات کو حذف کردیا گیا۔ پچھلی لوک سبھا میں آئین اُصولوں و قواعد کو بھی نظرانداز کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب عمل میں نہیں لایا گیا حالانکہ دستور کی دفعہ 93 کے تحت لوک سبھا کیلئے ڈپٹی اسپیکر اور اسپیکر کا جیسے ہی نیا اجلاس طلب کیا جاتا ہے اس کے ساتھ ہی انتخاب عمل میں لایا جانا ضروری ہے لیکن ان دونوں معاملوں میں ایوان ناکام رہا اور نئے ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب عمل میں نہیں لایا گیا حالانکہ ہماری پارلیمانی جمہوریت کی یہ روایت رہی ہے کہ اسپیکر حکمراں جماعت اور ڈپٹی اسپیکر اپوزیشن کا ہوتا ہے لیکن مودی حکومت نے اس سلسلہ میں اپوزیشن کی متعدد درخواستوں کو مسترد کردیا۔ اگر حکومت صحتمندانہ پارلیمانی طرزِ عمل اختیار نہیں کرتی تو پھر پارلیمانی جمہوریت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت کیلئے پارلیمنٹ کی کارروائی کیلئے سالانہ کیلنڈر مقرر کرنا، پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کرنے کی خاطر ارکان پارلیمان کی کم سے کم تعداد کو بااختیار بنانا، ایوان میں خانگی بلز پیش کرنے زیادہ وقت مختص کرنا اور ایک دن وزیر اعظم کے جواب دینے کا مقرر کرنا ، یہ تمام کے تمام صحتمندانہ پارلیمانی طرزِ عمل ہے ۔ ایک دن وزیر اعظم کے جواب دینے کیلئے اس لئے مقرر کیا جانا چاہیئے تاکہ ملک کو درپیش تمام سنگین مسائل کے حل کی راہ نکل آئے۔ یہ اور دیگر ایسی اصلاحات ہیں جن پر عمل آوری میں پریسائیڈنگ آفیسر اہم کردار ادا کرسکتے ہیں تاکہ ایوان میں تمام آوازوں کو سنا جاسکے ۔ غرض ! پارلیمنٹ میں ملک و قوم کے مفاد میں اہم ترین مسائل پر مباحث کرنا ضروری ہے۔