پی چدمبرم سابق مرکزی ومیر داخلہ
جب سے دستور ہند میں سال 1977 کے دوران 42 ویں ترمیم کی گئی تب سے ریاستوں کے سروں پر حد بندی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ دستور کی دفعات 81 اور 82 نے واضح طور پر واضح زبان میں کہا ہیکہ وہ ایک شہری ایک ووٹ اصول کی تائید و حمایت کرتا ہے اور دونوں دفعات میں مذکورہ اصول شامل ہے۔ دفعہ 81 لوک سبھا کے ارکان کی تعداد کو ریاستوں سے منتخب کردہ 530 سے زیادہ اور مرکزی زیر انتظام علاقوں (UT) سے منتخب کردہ 20 سے زیادہ نہیں رکھتی۔ موجودہ تعداد ریاستوں کے لئے 530 اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے لئے 13 ہے۔ مذکورہ دفعات کی ذیلی آرٹیکل (2) (a) پڑھتا ہے ’’ہر ریاست کو ایوان عوام (ایوان نمائندگان) میں متعدد نشستیں اسی طرح مختص کی جائیں گی کہ اس تعداد اور ریاست کی آبادی کے درمیان تناسب جہاں تک ممکن ہو تمام ریاستوں کے لئے یکساں ہو‘‘
اظہار آبادی کا مطلب ہے پچھلی مردم شماری میں معلوم کی گئی آبادی بشرطیکہ 2026 کے بعد کی جانے والی پہلی مردم شماری تک ریاستوں کی آبادی 1971 کی مردم شماری کے مطابق ہو۔ دفعہ 81 کا تقاضہ ہے کہ مردم شماری کے بھی کسی ریاست کو الاٹ کی گئی نشستوں کی تعداد کا دوبارہ تعین کیا جائے گا لیکن اس مشق کو 2026 کے بعد کی گئی مردم شماری تک روک دیا گیا کیونکہ وہ 1971 میں ایک شہری ایک ووٹ کے اصول کی خلاف ورزی کرتی ہے۔
بہرحال آج کل جمہوریت اور وفاقیت پر بہت زیادہ بحث کی جارہی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’ایک شہری ایک ووٹ جمہوریت کا بنیادی اصول اور اس کی بنیادی خوبصورتی ہے لیکن جیسا کہ امریکیوں نے 1776 میں محسوس کیا یہ وفاقیت کے اصول کے مغائر ہے۔ انہوں نے ایک ایسا حل تلاش کیا جس سے لگتاہے کہ گزشتہ 20 برسوں میں ان کی اچھی خدمت ہوئی ہے۔ ان لوگوں نے وقت بہ وقت ریاست کی آبادی کی بنیاد پر ایوان نمائندگان میں 50 ریاستوں میں سے ہر ایک کو الاٹ کی گئی نشستوں کا دوبارہ تعین کیا لیکن سنیٹ میں ہر ریاست کو مساوی نمائندگی (2 ارکان) دی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ہندوستان، امریکہ کی طرح ایک جمہوریت اور ایک وفاق ہے۔ ہم نے 1971 میں آبادی کے تناسب کے لحاظ سے نمائندگی کے نقصان کو دریافت کیا لیکن کوئی حل تلاش کرنے کی بجائے ہم نے 2026 تک سڑکوں کی خاک چھانی۔ آپ کو بتادیں کہ ہمارے ملک میں آخری مردم شماری 2011 میں ہوئی اور اگلی مردم شماری 2021 میں ہونے والی تھی۔ تاہم کووڈ ۔ 19 کے پیش نظر اسے منسوح کردیا گیا۔ بہرحال کسی نہ کسی بہانے سے سال 2021 سے مردم شماری کا اہتمام نہیں کیا گیا چنانچہ 2026 کے بعد مردم شماری کا مطلب یہ ہوگا کہ حلقوں کی حد بندی کرنا اور اس کی پیروی کرنا ضروری ہے۔ ہر ریاست کو الاٹ کی گئی سیٹوں کی تعداد کا دوبارہ تعین کیا جائے گا اور کچھ ریاستوں کو 2.0 یا اس سے کم شرح پیدائش کی سزا دی جائے گی جبکہ چند ریاستوں کو بڑی تیزی سے آبادی بڑھانے کا انعام دیا جائے گا۔ یہ رجحان ملک اور عوام کے لئے انتہائی خطرناک ہے اور ایک شہری ایک ووٹ کی عدم مساوات سب کے لئے پریشانی کا باعث بنے گی۔
تخفیف اور اضافہ : اگر لوک سبھا کی نشستیں 530+13 پر منجمد کردی جائیں حلقوں کی از سر نو حد بندی کی جائے ان کا ازسر نو تعین کیا جائے اور وہ بھی دستور کی دفعہ 81 اور 82 کے تحت کیا جائے تو جنوبی ریاستوں (اندھرا پردیش، کرناٹک، کیرالا، تاملناڈو اور تلنگانہ) کو زبردست نقصان ہوگا اور ان کے جملہ پارلیمانی حلقوں کی تعداد 129 سے گھٹ کر 103 ہو جائے گی۔ حد بندی آبادی کے تناسب کے اصول کی بنیاد پر کی جائے گی اور یہ ایک طرح سے جنوبی ہند کی ریاستوں کے لئے سزا ہے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنوبی ہند کی ان ریاستوں کو آبادی پر کنٹرول اور آبادی کو مستحکم رکھنے کی سزا دی جائے گی حالانکہ آبادی پر کنٹرول پانا شرح آبادی کو مستحکم رکھنا پچھلے پچاس برسوں کا ہمارا قومی مقصد رہا۔ آج اگر ہم پارلیمنٹ میں جنوبی ہند کی نمائندگی اس کی آواز کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ 543 پارلیمانی حلقوں میں 129 حلقوں کی جنوبی ہند نمائندگی کرتا ہے حد بندی کے بعد ہوسکتا ہے کہ جنوبی ہند کی ریاستوں کی آواز پارلیمنٹ میں کمزور ہو جائے گی۔ آپ کو یہ بتانا بھی ضروری ہیکہ حکومت نے یہ وعدہ کیا ہیکہ حد بندی کے عمل سے جنوبی ریاستوں کے حلقوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ جبکہ حقیقت میں حکومت کا یہ وعدہ کھوکھلا ہے ۔ برائے مہربانی یہ بھی نوٹ کریں کہ اس بات کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا کہ ملک کی سب سے زیادہ آبادی کی حامل ریاستوں، اترپردیش، بہار، راجستھان اور مدھیہ پردیش کے پارلیمانی حلقوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ ایک اور بات نشستوں کے دوبارہ تعین کے ذریعہ کوئی کمی یا اضافہ نہیں ہونا چاہئے۔ ایسا کرنے کا واحد طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ لوک سبھا میں منتخب اراکین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔ اس طرح کا منصوبہ حکومت نے بنایا اور ایسی صورت پیدا ہوتی ہے تو اس کے لئے بڑی ہشیاری اور مکاری سے لوک سبھا کا نیا چیمبر ڈیزائن کیا گیا جس میں 888 نشستوں کی گنجائش رکھی گئی۔ اگر سیٹوں کے دوبارہ تعین کے لئے یہ راستہ اختیار کیا جائے تو جنوبی ریاستوں کی آواز کافی حد تک کم ہو جائے گی یعنی 543/129 (23.76 فیصد) سے 888 نشستوں میں 129 سیٹس (14.53 فیصد) تک ہوگی۔ کسی بھی طرح سے ایک شہری ایک ووٹ کے اصول پر عمل کرنے کے لئے یہ بہت بڑی قیمت ہے۔ شرح پیدائش کو کم کرنے اور آبادی کو مستحکم کرنے کے لئے بھی اس طرح کی بڑی قیمت چکانا ناقابل قبول ہے۔ ہمارے ملک کی مختلف چنندہ ریاستوں کی موجودہ شرح پیدائش (ذریعہ ، این ایچ ایف ایس ۔ 5) آپ کو ساری کہانی بیان کردیں گی۔ آندھرا پردیش میں شرح پیدائش 1.70 فیصد، کرناٹک میں شرح پیدائش 1.70 فیصد کیرالا میں 1.80 فیصد، تاملناڈو میں 1.80 فیصد، تلنگانہ میں شرح پیدائش 1.82 فیصد درج کی گئی۔ اس کے برعکس بہار میں شرح پیدائش سب سے زیادہ 3.0 فیصد، اترپردیش میں 2.35 فیصد ، مدھیہ پردیش میں 2.0 فیصد اور راجستھان میں 2.0 فیصد درج کی گئی ہے۔
کس کا فائدہ؟ کس کا نقصان؟
لوک سبھا میں اگر ریاستوں کی نمائندگی اور ریاستوں کی آواز کے اثر کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ریاستیں جہاں جملہ شرح پیدائش (TFR) کم ہے ان کا نقصان ہوگا اور وہ ریاستیں جہاں جملہ شرح پیدائش (TFR) بہت زیادہ ہے ان کا فائدہ ہوگا۔ ویسے بھی راجیہ سبھا کی رکنیت ؍ ارکان کی تعداد پہلے ہی زیادہ آبادی کی حاصل ریاستوں کے حق میں جاچکی ہے۔ اگر مرکزی حکومت دستور کی دفعات 81 اور 82 پر پوری طاقت کے ساتھ قائم ہے اور جنوبی ہند کی ریاستیں آبادی کی بنیاد پر نشستوں کے از سر نو تعین کی مخالفت پر سختی سے قائم ہے تو یہ ایسے ہی ہوگا جیسے ایک ناقابل مزاحمت طاقت ایک ناقابل حرکت چیز کا سامنا کررہی ہے۔ آخر میں اختلاف اور آفت کا سامنا ہوگا۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہمارے پاس اس مسئلہ کا دوستانہ اور قابل قبول حل نکالنے کی عقلمندی و دانائی ہے۔