نیہا بھٹ
اکثر لوگ میمونہ سلطانہ کو نہیں جانتے یہ وہی میمونہ سلطانہ تھی جنھوں نے ہندوستان بھر میں ایک نئی تاریخ رقم کی تھی ۔ ہم بات کررہے ہیں 1957 ء کی اس برس بھوپال سے تعلق رکھنے والی اُس با حوصلہ خاتون نے جو ریاستی مقننہ کی رُکن تھیں ۔ لوک سبھا کیلئے سب سے پہلے منتخب ہونے والی پہلی دو مسلم خاتون ارکان میں سے ایک رہی ، دوسری مسلم خاتون رکن لوک مفیدہ احمد تھیں اور اُن کا تعلق ریاست آسام سے تھا ۔ اُن دونوں مسلم خواتین کا لوک سبھا کیلئے منتخب ہونا ایک کرشمہ سے کم نہیں تھا اور وہ بھی ایک ایسے وقت جبکہ مسلم ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب کی ماننے والی خواتین اپنے گھروں تک محدود تھیں اور ہندوستانی سیاست میں خواتین کا کردار قابل نظرانداز تھا یعنی بہت کم تھا ۔ میمونہ سلطان نے بحییثت کانگریس امیدوار مسلسل دو مرتبہ پارلیمنٹ کیلئے منتخب ہوئیں۔ آپ کو بتادیں کہ میمونہ سلطان کی پیدائش 1932 ء میں ہوئی اور 2006 ء میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوئیں ۔ ملک کی دوسری اور تیسری لوک سبھا کیلئے بھوپال سے اُن کا انتخاب عمل میں آیا تھا ۔ اس کے علاوہ اپریل 1974 ء تا 1980 ء میمونہ راجیہ سبھا رکن رہی اور پھر جون 1980 ء تا جون 1986 ء راجیہ سبھا رکن رہنے کا اُنھیں اعزاز حاصل رہا ۔
میمونہ سلطان کی یہ خوبی تھی کہ وہ بلالحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل تمام رائے دہندوں سے جڑی ہوئی تھیں اور عوام میں موجودہ رہنے اُن سے رجوع ہونے کا انداز بہت نرالا تھا ۔ اگر ہم لوک سبھا میں مسلم خواتین کی نمائندگی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ 1952 ء سے آج کی تاریخ تک صرف 18 مسلم خواتین لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئیں لیکن ان مسلم خاتون ارکان پارلیمان نے نامساعد حالات ، مذہبی قدامت پسندی کے رجحان ، پدرانہ معاشرہ کے باوجود پارلیمنٹ میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی حتی المقدور کوشش کی ۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 1951-52 ء میں ملک کے پہلے عام انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا تب سے لیکر اب تک لوک سبھا کیلئے تقریباً 7500 شخصیتوں کا انتخاب عمل میں آیا اور ان میں مسلم خاتون ارکان پارلیمنٹ کی تعداد صرف 18 رہی ۔ ہم بات کررہے 30 ریاستوں اور مرکزی زیرانتظام علاقوں سے منتخب ہوئے ارکان پارلیمنٹ ( لوک سبھا ) کی ۔ حال ہی میں ایک انگریزی … ’’Missing From The House _ Muslim Women in the Lok Saba‘‘ منظرعام پر آئی ۔ لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پانچ جنوبی ریاستوں بشمول کرناٹک سے صرف ایک مسلم خاتون کو لوک سبھا بھیجا حالانکہ شمالی ہند کی ریاستوں کے بشمول جنوبی ہند کی ریاستوں میں خواندگی کی شرح بہت زیادہ ہے ۔
آپ کو بتادیں کہ مذکورہ کتاب صحافی رشید قدوائی اور سیاسی تبصرہ نگار و تجزیہ نگار عنبرکمار گھوش نے تحریر کی ہیں ۔ اس کتاب میں یہ بھی کہا گیا کہ پچھلے 74 برسوں میں صرف 18 مسلم خواتین لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئیں اس طرح اس عرصہ کے دوران جو 7500 شخصیتیں لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلم خاتون ارکان پارلیمان کا اوسط صرف 0.6 فیصد رہا ۔ اگر ریاستی سطح پر دیکھا جائے تو ملک کی سب سے بڑی ریاست اُترپردیش سے 6 مسلم خاتون ارکان پارلیمان کا انتخاب عمل میں آیا ۔ اس ریاست کی 5 نشستوں پر خاتون ارکان نے 9 معیادوں کیلئے لوک سبھا میں نمائندگی کی ، دوسرے نمبر پر مغربی بنگال ہے جس نے چار نشستوں سے چار مسلم خواتین کو پارلیمنٹ بھیجا جنھوں نے 5 معیادوں کیلئے خدمات انجام دیں۔ آسام ، گجرات ، مدھیہ پردیش اور جموں و کشمیر دوسری ریاستوں ہیں جنھیں مسلم خواتین کو لوک سبھا بھیجنے کاا عزاز حاصل رہا۔
مذکورہ کتاب میں یہ بھی بتایا گیا کہ 18 میں سے 13 کا تعلق سیاسی خاندانوں سے رہا ہے ۔ کتاب میں 74 برسوں کے دوران لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئیں جن 18 خاتون ارکان کا ذکر کیا گیا ہے ان میں میمونہ سلطان (1957-67) ، مفیدہ احمد (1957) ، زہرابین اکبر بھائی چاوڈا (1962-67) ، تمام کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب ہوئیں جبکہ بیگم اکبر چناں عبداللہ 1977-79 ، 1984-89( نیشنل کانفرنس ) ، راشیدہ حق (1977-79)، محسنہ قدوائی (1977-89) ، عابدہ احمد (1981-89) ، نور (1996-1999-2004) (تمام کانگریس) ،رباب سیدہ (2004-09) ، سماج وادی پارٹی ، محبوبہ مفتی 2004-09, 2014-2019 ( پی ڈی پی ) ، تبسم حسن (2004-14) انھوں نے پارلیمنٹ میں ایس پی لوک دل ، بی ایس پی کی نمائندگی کی ۔ اسی طرح ٹی ایم سی کی معصوم نور نے 2009-19 میں پارلیمنٹ میں نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل کیا ۔ 2009-14 عام انتخابات میں بی ایس پی کی قیصر جہاں بھی منتخب ہوئیں۔ ٹی ایم سی کی ممتاز سنگھا میتا کو بھی پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہونے کا اعزاز حاصل رہا ۔ 2014-24 ء تک پارلیمنٹ میں ٹی ایم سی کی ساجدہ احمد نے نمائندگی کی ۔ کانگریس کی رانی نرحہ کو 1998-2004, 2009-14 کیلئے منتخب ہونے کا منفرد اعزاز ملا ۔ 2024 ء کے عام انتخابات میں اُترپردیش سے سماج وادی پارٹی کی اقراء حسن پارلیمنٹ کیلئے متخب ہوئیں اور وہ غیرمعمولی انداز میں عوامی خدمات انجام دے رہی ہیں۔