پاسباں مل جائیں گے کعبہ کو اسی صنم خانے سے !

   

ملک کے سنگین حالات کے پس منظر میں دعوت فکروعمل
ہمارے ملک میں اندلس کی تاریخ کا ریہرسل

پہلی قسط

محمد الیاس ندوی بھٹکلی
آج سے نصف صدی قبل ہی مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ نے اپنی نگاہ بصیرت سے اس کی پیشین گوئی کی تھی کہ ہمارے ملک کی سرزمین پر اندلس کی تاریخ دہرانے کی پوری تیاری ہوچکی ہے،اگر مسلمان بالخصوص علماء اپنی فراست کا ثبوت دیتے ہوئے اس آنے والے طوفان بلاخیز پر بند باندھنے کی کوشش نہیں کریں گے اور امتِ مسلمہ کو خوابِ غفلت سے بیدار نہیں کریں گے تو انھیں اپنی آنکھوں سے اس ملک میں اندلس میں اسلامی حکومت کے خاتمہ کے بعد رونما ہونے والے دلخراش مناظر کو دیکھنے میں دیر نہیں لگے گی۔
ملک کے موجودہ ناگفتہ بہ حالات جس کی مثال ماضی قریب کیا ماضی بعید میں بھی نہیں ملتی اس پر جب ہم مفکر اسلامؒ کی مؤمنانہ پیشین گوئی کے تناظر میں نظر دوڑاتے ہیں تو ایک عام مسلمان اور مؤمن کی طرح ہم پر بھی افسردگی اور مایوسی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، لیکن جب ہم عالم اسلام بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کی ماضی قریب کی تاریخ خاص کر 1857 اورملک کی تقسیم و آزادی کے موقع پر مسلمانوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کے دل دہلادینے والے جو واقعات پیش آئے اس کا تجزیہ ملک کی موجودہ صورتِ حال سے کرتے ہیں تو یک گونہ اطمینان ہوجاتاہے کہ اس ملک میں ان شاء اللہ اندلس کی تاریخ دہرانا آسان نہیں ہے، جب مسلمانان ہند اس سے بدتر حالات میں بھی اپنی ایمانی طاقت کے ساتھ الحمدللہ اس کا کامیاب مقابلہ کرکے دنیا کے سامنے اپنی مؤمنانہ زندگی کا ثبوت دے چکے ہیں تو انشاء اللہ ان موجودہ تشویش ناک حالات میں بھی اپنی توحیدی شان کے ساتھ پھر ایک بار ابھر کردنیاکے سامنے آنے میں کامیاب ہوں گے اور اس ملک میں اپنے دینی تشخص کے ساتھ اپنے وجود کو ثابت کرنے میں بھی کامیاب ہوں گے۔لیکن ماضی کے اور موجودہ حالات میں فرق ہے۔

لیکن ہمیں یہ بات بھی سمجھنا چاہیے کہ ہمارے ملک کے مسلمانوں کو ماضی میں درپیش حالات اور موجودہ صورتِ حال میں بنیادی فرق ہے،ماضی میں نشانہ مسلمان تھے اور اب اسلام ہے،سابق میں مسلمانوں ہی کو عملاً ختم کرنے اور ان کو پوری طرح جانی ومالی نقصانات سے دو چار کرنے کی منصوبہ بندکوشش کی گئی تھی اور اس میں ان کو تھوڑی بہت کامیابی بھی ملی تھی، لیکن اب وہ اس سرزمین سے مسلمانوں کے بجائے اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں، اسی لیے 1857؁ء سے 1947ء؁ تک 90 سال کے وقفہ میں اور اس کے بعد بابری مسجد کی شہادت تک مسلمانوں کی جان ومال کو نشانہ بنایاگیاجس کے نتیجہ میں اس دوران وقفہ وقفہ سے رونماہونے والے فسادات میں جامِ شہادت نوش کرنے والوں کی تعداد مجموعی طور پر دس لاکھ کے آس پاس پہنچ گئی جو پوری اسلامی تاریخ میں بغیرجنگ کے کسی بھی ایک ملک میں یک طرفہ شہید ہونے والوں کی بہت بڑی تعداد تھی جس کی مثال ہمیں صرف بغداد میں تاتاریوں کے حملہ کے علاوہ کہیں اور نہیں ملتی، اب صورت حال اس کے برخلاف ہے، عالم اسلام میں اب اسلام دشمن طاقتوں کو اندازہ ہوگیاہے کہ وہ قیامت تک اس سرزمین سے مسلمانوں کے وجود کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے تواس وقت یہ فیصلہ کیا گیاہے کہ ان کو عملاً نام کے مسلمان رکھتے ہوئے اندورن سے ان کی ایمانی قوت کو ختم کیاجائے یاپھرایمانی جذبہ کو کم ازکم سرد کرتے ہوئے انھیں صرف جسمانی اعتبار سے باقی رہنے دیاجائے۔

ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ایک حدتک اس میں ان کو کامیابی بھی ملی ہے، چنانچہ عالمی سطح پر نظام تعلیم میں ایسی تبدیلی کی گئی ہے کہ ایک طرف اس سے اخلاقی انارکی بھی آئے اوردوسری طرف اس سے استفادہ کرنے والے طلبہ وفارغین یا تو اپنے مذہب سے دور ہوجائیں یا کم از کم اپنے گھر کی چہاردیواری تک اپنے دین کو محدود رکھیں اور مغربی تہذیب وثقافت کو اپناتے ہوئے خود ساختہ روشن خیالی اور ترقی کے نام سے وہ ایک دن خود اپنے دین کے باغی اور معترض بن کر سامنے آئیں،چنانچہ آج عالم اسلام بالخصوص عالم عرب میں جو نئی تعلیم یافتہ نسل حکمرانی کے فرائض انجام دے رہی ہے ان کے نظریات وافکار، اسلام پر ان کے اعتماد کی کمی، یہودو نصاریٰ سے ان کی قربت اوردین پسند تحریکات و اداروں اور اسلامی شخصیات سے ان کی دوری بلکہ نفرت اورالرجی ان ہی مذموم عزائم میں ان کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اسی کامیاب منصوبہ کو درآمد کیا گیا ہے:۔
عالم اسلام اور عالم عرب کی طرح ان یہود نواز تنظیموں اور صہیونی ومشنری اداروں کو تہذیبی یلغار اور فکری ارتداد کے حوالہ سے خود ہمارے ملک میں بھی غیر متوقع کامیابی مل رہی ہے،چنانچہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج سے دس سال قبل تک وقفہ وقفہ سے ملک کے کسی بھی صوبہ یا خطہ سے فرقہ وارانہ فسادات کی خبریں آتی تھیں لیکن آٹھ دس سال سے یہ سلسلہ تقریباً رک گیا ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اعلیٰ سطح پر موجود پالیسی ساز شخصیات اور یہودیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھنے والے برہمن واداداروں کو عالمی سطح پر ہونے والے اس کامیاب منصوبہ و تجربہ کو ہمارے ملک میں بھی درآمد کرنے میں کامیابی ملی ہے، چنانچہ اس ملک سے مسلمانوں کو ختم کرنے کی ناکام کوششوں کے بعد مسلمانان ہند وبرصغیر پر بھی اب اس آخری حربہ کو آزمایاگیا ہے جس کے مطابق مسلمان نام کے مسلمان رہ جائیں اور چاہے تو نماز، روزے اور حج وزکاۃ کے بھی پابند رہیں لیکن زندگی کے مختلف شعبوں اور انفرادی و اجتماعی زندگی میں اپنے ملّی تشخصات کو چھوڑکراپنے دین کے زیراثر رہنے کے ارادوں اورخیالات سے دستبردار ہوجائیں اور ایک ایسے متحدہ کلچر میں ضم ہوجائیں جس میں ایمان تو دور کی بات اخلاق اورحیاکا بھی دوردور تک نام ونشان نہ رہے۔
اسلام دشمن طاقتوں کو اس معاملہ میں مجموعی طور پر ماضی قریب میں اتنی کامیابی نہیں ملی ہے جتنی ان کو پچھلے دس سالوں میں عالم اسلام بالخصوص برِصغیر میں ملی ہے،جس کے نتیجہ میں ادھر چندسالوں میں فکری ارتداد والحاد کے جوواقعات مسلم معاشرہ میں پیش آئے ہیں وہ پچھلے پچاس سالوں میں پیش نہیں آئے ہیں، اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ 2005ء؁ تک اسلام کے عائلی قوانین کے خلاف عدالتوں میں رٹ داخل کرنے والے اکثر غیر مسلم ہوا کرتے تھے اور اس میں اکاّدکاّہی کوئی مسلمان ہوتا تھا، لیکن اب حال یہ ہے کہ مسلم پرسنل لا بو رڈ کروڑوں کے صرفہ سے جن عائلی قوانین کے سلسلہ میں عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کررہا ہے وہ اکثر خود ہمارے مسلمان بھائی بہنوں کی طرف سے داخل کردہ ہیں، اسی طرح اسلام پر اعتراضات کرنے والے ٹی وی چینلوں کے ڈیبیٹ میں اس وقت غیر مسلموں سے زیادہ ہمیں خود عصری تعلیم یافتہ مسلم مرد وخواتین نظر آرہے ہیں۔ ہمارے ملک میں اسپین کی تاریخ دہرانا ناممکن نہیں مشکل ضرور ہے:۔

اس احساس کے باوجود کہ ہمارے ملک کو دوسرا اسپین بنانے کی بڑی حکمت عملی کے ساتھ منصوبہ بندی کی گئی ہے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز بھی ہوچکا ہے لیکن تاریخ کے جن طالب علموں کی اسپین میں مسلمانوں کے انخلا کے وقت اس وقت کے وہاں کے دینی واخلاقی حالات اور ہمارے ملک کی موجودہ صورتِ حال پر نظر ہے ان کا کہنا ہے کہ دونوں جگہ کے حالات میں بنیادی فرق ہے جس کی بنا پر ہندوستان میں اس تاریخ کو دہرانے کاقوی امکان تو ہے لیکن یہ اتنا آسان نہیں، مسلمانوں کواسپین سے ہجرت کرانے اور اپنے دین سے دستبردار کرانے میں کامیابی ان کواس لیے ملی تھی کہ وہاں اس وقت علما اور عوام کا آپسی ربط نہ ہونے کے برابر تھا، مذہبی قائدین خودآپس میں دست وگریباں تھے اور فقہی مسالک کو مذہب کا درجہ دیے ہوئے تھے، آپسی انتشار وافتراق اور گروہ بندی آخری حد تک پہنچ گئی تھی جس کی وجہ سے عوام دینی قیادت سے بدظن تھے، شریعت کے تحفظ میں اہم رول اداکرنے والے دینی مدارس کا وجود وہاں اُس وقت نہ ہونے کے برابر تھا، نئی نسل کے ایمان پر باقی رکھنے کی کوششیں بھی جو دینی مکاتب کی شکل میں ممکن تھیں نہ ہونے کے برابر تھی، دوسری طرف غیر اسلامی تہذیب جس طرح خاموشی سے مسلمانوں کے اندرون سے ایمان وتوحید کو کھوکھلاکررہی تھی اس کا احساس عوام تو عوام خواص کوبھی نہیں تھا اور نہ اس کے سدّ باب کے لئے اجتماعی کوششیں ہورہی تھیں، برادرانِ وطن تک دین کے پیغام کو پہنچانے اور ان میں اسلام کا تعارف کرانے کا دعوتی کام بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔
لیکن اس کے برخلاف الحمدللہ ہمارے ملک کوہزاروں کمیوں اور کوتاہیوں کے باوجود جس کا ہمیں خود الحمدللہ احساس بھی ہے اور اعتراف بھی، اب تک اس ناگفتہ بہ صورتِ حال سے مجموعی طور پر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے محفوظ رکھا ہے، اسپین میں ان کوکامیابی اس لیے بھی ملی تھی کہ ایک طرف خارج میں دشمنوں کی حکمتِ عملی اور منصوبہ بندی تھی تو دوسری طرف اندرون میں اس کے لئے میدان بھی ہموار تھا اور زمین بھی نرم تھی، ہمارے یہاں اگرچہ اس کے لیے نہ صرف کوششیں ہورہی ہیں بلکہ اسپین سے زیادہ بڑے پیمانے پر اور بڑی چالاکی اور مکاّری سے اس کو عملی جامہ پہنانے پر توجہ بھی مبذول کرائی جارہی ہے، لیکن ہزار کوششوں کے باوجود ان کو اس میں کامیابی کا ملنا ناممکن نہیں تو بہت دشوارضرورہے، اس لیے کہ ہمارے ملک کے طول وعرض میں الحمدللہ دینی مدارس کا جال مضبوط اسلامی قلعوں کی شکل میں آج بھی موجود ہے جس کی مثالیں پورے عالم اسلام میں اس وقت نہیں ملتیں، دین وشریعت سے عوام وخواص کو مربوط رکھنے میں اہم رول ادا کرنے والی سدّسکندری کی طرح قائم یہ ایمانی چہاردیواریں اور تحفظ ِ شریعت کے مراکز جس کی اہمیت کا اندازہ ہم سے زیادہ ہمارے دشمنوں کو ہے اپنا دعوتی فریضہ کسی نہ کسی صورت میں انجام دے رہے ہیں،اسی کے ساتھ دین اسلام کو انحرافی نظریات سے محفوظ رکھنے اور نت نئے فتنوں کے تعاقب کا فریضہ بھی ہمارے یہی دینی مدارس کے فارغین ہی انجام دے رہے ہیں، الحمدللہ علماء پر عوام ہی نہیں خواص کا بھی اعتماد ابھی بھی باقی ہے، ان کی ایک آواز پر لاکھوں کا جو مجمع آج بھی اپنے دین کے تحفظ کے لیے میدان میں آکر اپنی زندگی کا ثبوت دیتا ہے اس کا تصور اس وقت آپ کسی اسلامی ملک میں بھی نہیں کرسکتے، اپنے ہزار مسلکی اختلافات کے باوجود دینی حلقوں اور مذہبی قیادت میں آج بھی ملت کے مشترکہ مسائل میں تال میل کسی نہ کسی صورت میں پایاجاتا ہے، علماء اوردینی قیادت پر امت کا یہی اعتماد، ان دینی مدارس اوراسلامی قلعوں کی برکت سے مسلمانوں کا توحیدِ خالص کے ساتھ اپنی شریعت پر زندہ رہنے کا یہی پختہ عزم اور شریعت سے ان کی وابستگی ووارفتگی کی یہی عظیم نعمت دشمنوں کی نظر میں اس وقت کھٹک رہی ہے، ان کو اب یقین ہوگیا ہے کہ ہم اس ملک میں اسلام کو زندہ رکھنے والے ان مدارس کے پھیلتے اس وسیع جال کو نہ ختم کرسکتے ہیں اور نہ علما ء سے عوام کے اس مستحکم ربط کو ختم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، اس لیے اب ان کی کوششیں یہی ہیں کہ کم از کم دینی قیادت پرعوام وخواص کے اعتماد میں خاموشی سے کمی لانے کی کوشش کی جائے اور دینی مدارس سے عوامی ربط کو کمزور کیا جائے اور خود ان مدارس کو خالص دینی تعلیم کے بنیادی مقصد سے ہٹا کر عصری تعلیم کی آمیزش کے ساتھ اس کی حقیقی روح سے اس کو دور کرکے برائے نام مدرسہ یا جامعہ رہنے دیاجائے۔
اس پورے پس منظر میں اب برصغیر کے مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اگر اپنے اس ملک میں اسپین کی تاریخ کو دہرانے سے اس کو بچاناچاہتے ہیں تو اپنے ان مدارس ومکاتب اور دینی قلعوں کی نہ صرف حفاظت کریں بلکہ اس کو پہلے سے زیادہ مستحکم ومضبوط کریں اور دشمنوں کی چالوں کو سمجھتے ہوئے مدارس کی روح کو باقی رکھتے ہوئے اس کو اپنے حقیقی وبنیادی مقاصد سے ہٹنے نہ دیں۔