پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کانگریس کیلئے احیاء کا موقع

   

شیشادری چاری
چار ریاستوں اور ایک مرکزی زیرانتظام علاقہ کے اسمبلی انتخابات کے جو بھی نتائج آئیں گے ، ایسا لگتا ہے کہ ملے جلے رہیں گے اور یہ نتائج ہندوستانی سیاست کا مستقبل طئے کریں گے۔ دیگر انتخابات کی طرح پانچ اسمبلیوں کے انتخابات میں بھی ماحول عام طور پر تلخ رخ اختیار کرتا جارہا ہے، خاص طور پر مغربی بنگال میں انتخابی مہم انتہائی تلخ و ترش دکھائی دے رہی ہے۔ مغربی بنگال کے سیاسی میدان میں بہت زیادہ گہماگہمی اس لئے بھی ہے کہ وہاں بی جے پی، ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کی کٹر حریف ہے اور یہ بھی دکھائی دے رہا ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں میں دشمنی کا عنصر بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی ایک وجوہات بھی ہیں جس سے مغربی بنگال، آسام، کیرالا، ٹاملناڈو اور پڈوچیری سے بالکل الگ دکھائی دیتا ہے۔ انتخابی تجزیہ نگاروں کے مطابق ان پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں سخت مقابلہ مغربی بنگال میں ہوگا جہاں بی جے پی، ٹی ایم سی سربراہ و چیف منسٹر ممتا بنرجی سے ہر حال میں اقتدار چھیننے کی خواہاں ہے۔ بنگال ایک ایسی ریاست ہے جہاں ٹی ایم سی اقتدار میں ہے اور ممتا بنرجی تیسری میعاد کیلئے عہدۂ وزارت اعلیٰ پر فائز ہونے پر تول رہی ہیں لیکن آہنی عزائم کی حامل ممتا بنرجی کو اس مرتبہ بی جے پی سے سخت مقابلہ درپیش ہے جس نے یہ سطور لکھے جانے تک عہدہ وزارت اعلیٰ کیلئے اپنے کسی قائد کا نام پیش نہیں کیا۔ تاحال بنگال کے بارے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ واحد ریاست ہے جہاں سب سے زیادہ سیاسی انحراف ہوا ہے اور ایسے کئی امیدوار میدان میں ہیں جو حیرت انگیز نتائج دے سکتے ہیں۔ خاص طور پر اپنی اپنی پارٹیوں سے غداری کرنے کے معاملے میں ٹی ایم سی بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ ٹی ایم سی کے ایک درجن سے زائد اہم رہنماؤں نے پارٹی کو خیرباد کہہ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں کیونکہ انتخابات کے دوران اس طرح کے واقعات عام ہیں۔ انتخابی بگل بجنے کے بعد بڑے پیمانے پر ’’آیا رام گیا رام‘‘ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
بنگال میں مذہب اور تشدد
ریاست میں بی جے پی ورکروں پر بڑھتے ہوئے حملے ایک سنگین معاملہ ہے اور اس کے نتیجہ میں بی جے پی کو عوام کی ہمدردی حاصل ہوتی جارہی ہے۔ دراصل بائیں بازو کی حکمرانی کے دوران ٹی ایم سی ورکروں اور لیڈروں پر بے تحاشہ حملے کئے گئے۔ نتیجہ میں عوام کی ہمدردی ٹی ایم سی کو حاصل ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کمیونسٹوں کے مقابلے ممتا بنرجی کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اس دوران ممتا بنرجی اپنی دو طرح کی شبیہ پیش کرنے میں کامیاب رہی۔ ایک تو انہوں نے خود کو مظلوم ظاہر کیا اور دوسرے ایک جنگجو کی حیثیت سے خود کو منایا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کانگریس کو بھی بائیں بازو جماعتوں کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ سدھارتھ شنکر رے جیسے طاقتور اور مضبوط رہنما کانگریس میں ہوا کرتے تھے۔ وہ سابق میں بنگال کے چیف منسٹر بھی رہ چکے ، لیکن کمیونسٹوں کے کانگریسی قائدین پر حملوں کا کانگریس کو زیادہ فائدہ حاصل نہ ہوسکا اور نہ ہی ملک کی اس قدیم ترین پارٹی کو بنگال میں عوامی ہمدردی حاصل ہوسکی۔

اب اس مرتبہ یہ دیکھنا بہت دلچسپ ہوگا کہ بنگال میں کس طرح مذہبی بنیاد پر رائے دہی کی جاتی ہے۔ بائیں بازو اور ٹی ایم سی کے درمیان مقابلے میں یہ عنصر زیادہ اہمیت نہیں رکھتا لیکن پچھلے چند برسوں سے ایسا لگتا ہے کہ ممتا بنرجی نے ریاست میں مسلم ووٹ بینک کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو فروغ دیا ہے۔ اس سے انہیں مذہبی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے میں کافی حد تک مدد ملے گی، لیکن بیروزگاری، غربت، تحفظ و سلامتی اور ان سب سے بڑھ کر زبان ایسے عناصر ہیں جو رائے دہندوں کو متحد کریں گے۔ ممتا بنرجی کے بارے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انہوں نے مقامی شناخت کا نعرہ لگایا ہے۔ نتیجہ میں کہا یہ جارہا ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم جس نے بہار اسمبلی انتخابات میں پانچ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، اچانک مغربی بنگال اسمبلی مقابلے سے باہر ہونے کو ترجیح دی (یہ اور بات ہے کہ میڈیا کے بعض گوشوں میں یہ اطلاعات بھی گشت کررہی ہیں کہ 27 مارچ کو منعقدہ ایک جلسہ میں اسدالدین اویسی امیدواروں کا اعلان کریں گے)۔ ہوسکتا ہے کہ مقامی شناخت کا عنصر اسی طرح ممتا بنرجی کیلئے کام کرے گا جس طرح مہاراشٹرا میں شیوسینا کیلئے کام کیا تھا۔ شیوسینا نے 80 کے دہے کے اوائل میں ’’مراٹھی اَسمیتا‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔
اگرچہ پڈوچیری میں صرف 30 نشستیں ہیں لیکن بی جے پی کیلئے یہ مرکزی زیرانتظام علاقہ کم اہمیت نہیں رکھتا۔ حال ہی میں کئی ارکان نے کانگریس حکومت سے انحراف کرتے ہوئے اسے زوال سے دوچار کیا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہاں بھی کانگریس اپنی حکومت کی معزولی پر عوامی ہمدردی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ لیکن پڈوچیری میں کانگریس کے رائے دہندے ڈی ایم کے کی تائید کرتے ہیں تو پھر بی جے پی کیلئے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ بی جے پی یہ امید کررہی ہے کہ کانگریس ارکان کے انحراف سے اسے فائدہ پہنچے گا۔

اب رہی بات آسام کی یہ واحد ریاست ہے جہاں کانگریس اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتی ہے۔ لیکن آسام میں بی جے پی قائدین، وزیراعظم نریندر مودی کی کرشماتی شخصیت اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی خصوصی حکمت عملی و منصوبہ بندی پر تکیہ کئے ہوئے ہیں۔
اسی طرح کیرالا میں بھی اپنی حالت سدھارنے کا اچھا موقع ہے۔ کیرالا میں سہ رخی مقابلہ ہے، لیکن یہ کہا جارہا ہے کہ بی جے پی مخالف رائے دہندے ، کانگریس کے بجائے اپنا جھکاؤ بائیں بازو محاذ کی طرف کریں گے اور وہاں اصل مقابلہ ایسا لگ رہا ہے کہ بائیں بازو محاذ اور بی جے پی کے درمیان ہوگا لیکن آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ مقابلہ کس کے درمیان ہوگا۔