پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ
جب میں یہ کالم تحریر کرنے بیٹھا ہوں جمعرات کا دن اور تاریخ 30 نومبر ہے، تلنگانہ میں رائے دہی کا دن، ویسے بھی الیکشن کمیشن نے چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش ، راجستھان ، میزورم اور تلنگانہ ان پانچوں ریاستوں کے انتخابی شیڈول کا اعلان کرتے ہوئے تلنگانہ میں سب سے آخر یعنی 30 نومبر کو رائے دہی مقرر کی تھی ۔ بہرحال 3 ڈسمبر کو مذکورہ تمام ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی ہوگی اور نتائج کا اعلان کیا جائے گا ۔ میرے اس مضمون کا آپ لوگ اتوار 3 ڈسمبر کو ہی مطالعہ کریں گے اور اس دوران پانچوں ریاستوں میں گنتی کا عمل شروع ہوچکا ہوگا ۔ اگر دیکھا جائے تو پانچوں ریاستوں میں کانگریس کا سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے ۔ کانگریس ان ریاستوں میں پوری سنجیدگی سے مقابلہ کررہی ہے۔ اس کے برعکس بی جے پی صرف تین ریاستوں میں ہی مقابلہ میں دکھائی دیتی ہے اور ان تینوں ریاستوں میں بھی بی جے پی کا راست مقابلہ کانگریس سے ہے ۔ میں بات کر رہا ہوں چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش اور راجستھان کی ، ویسے بھی حالیہ عرصہ کے دوران ہندوستان بھر میں بی جے پی کو کافی جھٹکے لگے ہیں، اسے کامیابیاں کم اور ناکامیاں زیادہ ملی ہیں ۔ تلنگانہ میں بھی بی جے پی دور دور تک نظر نہیں آتی۔ ملک کی اس نو عمر ریاست میں برسر اقتدار بی آر ایس اور کانگریس کے درمیان راست مقابلہ ہے ۔ میزورم شمال مشرق کی ایک چھوٹی سی ریاست ہے ، وہاں کی دو بااثر سیاسی جماعتیں علاقائی جماعتیں ہیں، ایک تو ایم این ایف ہے جو حکومت میں ہے اور دوسری زیڈ پی ایم ہے ماضی کے انتخابی ریکارڈ کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس ریاست میں کانگریس تیسری طاقت ہے، بی جے پی کا اثر نہیں کے برابر ہے۔
مسائل : چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش ، راجستھان ، تلنگانہ اور میزورم کے انتخابات میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ (مہنگائی) اور بیروزگاری کے مسائل چھائے رہے لیکن مسٹر مودی نے انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے باوجود ان مسائل کو بری طرح نظر انداز کردیا تاہم کانگریس نے عوام کے درمیان پہنچ کر ان دونوں مسائل پر بہت کچھ کہا اور عوام کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ عوام مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ آچکے ہیں اس لئے تبدیلی لانا بہت ضروری ہے۔ بہرحال ان پانچوں ریاستوں کے انتخابی نتائج بہت اہم ہیں اور ہم اس بات سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ یہ انتخابات عام انتخابات کی سمت اور راہ کا تعین کردیں گے ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ انتخابی نتائج عام انتخابات سے متعلق اشارے ضرور دیں گے کیونکہ 2018 اور 2019 کے سبق ہر کسی کے ذہن میں تازہ ہیں۔
چھتیس گڑھ : اس ریاست کے انتخابات کے بارے میں ہر کسی کے ذہن میں یہی ہے کہ یہ بہت آسان الیکشن ہیں، اس ریاست میں 7 نومبر کو پہلے رائے دہی ہوئی (میزورم کے ساتھ) اس ریاست کی اہم بات یہ ہے کہ یہاں بی جے پی تین مرتبہ اقتدار میں رہی یعنی 2003 ء سے 2018 ء تک اور 2017-18 کے اختتام کے بعد دیکھا گیا کہ چھتیس گڑھ ہندوستان کی غریب اور پسماندہ ترین ریاستوں میں سے ایک ہے اورا س ریاست کی 39 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کا شکار ہے ۔ چنانچہ ریاست میں عوام نے 2018 ء میں کانگریس کو اقتدار سونپا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کانگریس کی حکومت نے سب سے زیادہ توجہ زرعی شعبہ پر مرکوز کرتے ہوئے ریاست کو چاول کی پیداوار کے معاملہ میں سرفہرست کردیا ۔ اس طرح چھتیس گڑھ Rice Bowl of Indiaمیں تبدیل ہوگئی ۔ 2018 ء میں ریاست چھتیس گڑھ کے عوام کی فی کس اوسط آمدنی 88793 روپئے تھی جو کانگریس اقتدار میں بڑھ کر 2023 ء میں 1,33,897 ہوگئی ۔ اس طرح 5 برسوں کے دوران ریاست کے تقریباً 40 لاکھ لوگ غربت سے باہر آئے ۔ چھتیس گڑھ انتخابات کی اہم بات یہ رہی کہ بی جے پی نے ان انتخابات میں اپنے لیڈر یا عہدہ چیف منسٹری کے امیدوار کو پیش نہیں کیا۔ پارٹی میں کوئی قائد دکھائی نہیں دے رہا تھا ، ہر طرف مودی ہی مودی تھے۔ بہرحال ریاست کے لوگوں میں بڑھتی خوشحالی فیصلہ کن کردار ادا کرے گی اور کانگریس فاتح ہوگی۔
مدھیہ پردیش: اس ریاست میں بھی تبدیلی آنے والی ہے ۔ ریاست کی موجودہ بی جے پی حکومت کو (جو شیوراج سنگھ چوہان کی قیادت میں کام کر رہی ہے) ایک غاصب سمجھا جاتا ہے جس نے کانگریس میں انحراف کو ہوا دی اور ہندوستان کی قدیم ترین اس پارٹی کے ارکان کا انحراف کرواتے ہوئے مارچ 2020 میں اقتدار پر آئی ۔ عوام یہ بھی جان گئے ہیں کہ بی جے پی قیادت اب کسی بھی طرح شیوراج سنگھ چوہان پر بھروسہ نہیں کرتی اور انہیں چیف منسٹر بھی نہیں بنائیں گے ۔ بی جے پی نے کئی مرکزی وزراء اور موجودہ ارکان پارلیمنٹ کو انتخابی میدان میں اتارا ہے تاکہ حکومت مخالف لہر کا مقابلہ کیا جاسکے۔ اگر دیکھا جائے تو اس ریاست کے انتخابات شیوراج سنگھ چوہان کے 14 سالہ طویل اقتدار بمقابلہ لاڈلی بہنا اسکم ہے جسے چوہان نے متعارف کروایا تھا ۔ کبھی بھی ہمت نہیں ہارنے والے کمل ناتھ امید ہے کہ کانگریس کو اقتدار کیلئے درکار جادوئی عدد تک لائیں گے ۔ کانگریس ، بی جے پی دونوں کامیابی کے دعوے کر رہے ہیں لیکن اقتدار کا انعام اس پارٹی کو ہی ملے گا جو مضبوط تنظیم اور بوتھ مینجمنٹ کی بہترین مہارت رکھتی ہو۔
راجستھان : جہاں تک اس ریاست کا سوال ہے یہ ایک معمہ ہے۔ 1993 ء کے دسویں عام انتخابات سے یہاں اقتدار کبھی کانگریس تو کبھی بی جے پی کے پاس رہا۔ چنانچہ کانگریس اور بی جے پی کی باری باری حکومتوں کی روایت کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جارہا ہے کہ دوبارہ حکومت تبدیل ہوگی ۔ تاہم چیف منسٹر مسٹر اشوک گہلوٹ کانگریس کی کامیابی کو لے کر پرامید ہیں۔ انہیں بھروسہ ہے کہ ریاست میں کانگریس کامیابی حاصل کرے گی ۔ وہ حکومت کی تشکیل میں آزاد امیدواروں پر انحصار کرسکتے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ بی جے پی (مقامی چہرہ کے بغیر میدان میں اتری ہے، ہر طرف مودی کی یہی کہانی ہے۔ مقامی قائدین کی بجائے ساری توجہ کا مرکز مودی کو بنادیا جاتا ہے ) ۔ بی جے پی ایسا لگتا ہے کہ آزاد امیدواروں پر انحصار کرے گی ۔ آپ کو بتادوں کہ جو آزاد امیدوار ہیں، وہ کوئی اور نہیں بلکہ وہ قائدین ہیں جنہیں بی جے پی اور کانگریس نے ٹکٹ دینے سے انکار کردیا تھا اور ان کے بارے میں یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ وہ (آزاد امیدوار) دونوں جماعتوں کے خفیہ ہتھیار ہیں ۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں پارٹیوں میں سے کوئی بھی اپنے بل بوتے پر جادوئی عدد تک نہیںپہنچ پائیں گی ۔ جئے پور میں فی الوقت یہ بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ 3 ڈسمبر کے بعد کون کس کی مدد کرے گا اور انتخابات کے بعد جو ڈرامہ شروع ہوگا ، وہ انتخابی دوڑ سے کہیں زیادہ دلچسپ رہے گا۔
دیگر ریاستیں : تلنگانہ کی اپنی ایک انفرادیت اپنا ایک زمرہ ہے۔ اس ریاست پر کے چندر شیکھر راؤ کی حکومت ہے ۔ ماضی میں تلنگانہ تحریک کے مجاہد اب فارم ہاؤس چیف منسٹر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔ (اکثر لوگ اور ان کے سیاسی حریف انہیں فارم ہاؤس چیف منسٹر کہتے ہیں) حکومت ایک فیملی چلاتی ہے۔ یہ بی آر ایس کی طاقت اور کمزوری دونوں ہیں۔ ریاست میں کانگریس کی قیادت نڈر و پر جوش مسٹر ریونت ریڈی کرتے ہیں۔ وہ ایسے قائد کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں جو بی آر ایس اور اس کے اقتدار کیلئے ایک چیلنج بن گئے ہیں ۔ ایک خطرہ بن گئے ہیں۔ سیاسی مبصرین نے تلنگانہ کے اضلاع میں حکومت کے خلاف ایک لہر دیکھی ہے ۔ بی جے پی کی انتخابی مہم میں زیادہ دم خم نہیں تھا، اس کے باوجود وہ چند نشستیں حاصل کرسکتی ہے ۔ اگر بی آر ایس کو اقتدار تک پہنچنے میں ارکان اسمبلی کی کمی کا سامنا ہوتا ہے تو وہ ایم آئی ایم کے 6-7 اور بی جے پی کی (6 ارکان تک منتخب ہونے کے امکانات ہیں) تائید و حمایت سے خود کو اقتدار سے محروم ہونے سے بچائے گی۔ اگر کانگریس بی آر ایس کو شکست دیتی ہے تو اس کی اہم وجہ دیہی اور نوجوانوں کے ووٹ ہوں گے ۔ ہم ریاست تلنگانہ میں حیرت انگیز نتیجہ کی توقع کرسکتے ہیں۔
میزورم: اس ریاست میں انتخابی مہم کے دوران منی پور سے نقل مکانی کرنے والے ککی قبائل کا موضوع چھایا رہا۔ MNF اور ZPM نے زاموسی اور ککیوں کے درمیان برادرانہ تعلقات کو اجاگر کیا تاکہ عوام کی تائید وحمایت حاصل کی جاسکے، عوام کی برہمی کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم نے میزورم کے اپنے دورہ کو منسوخ کردیا (انہوں نے 3 مئی 2023 ء سے جبکہ منی پور میں تشددپھوٹ پڑتا تھا) اب تک منی پور کا دورہ نہیں کیا۔ اس ریاست میں MNF اور ZPM کا مقابلہ ہے۔ یہ انتخابات اس بات کا فیصلہ کردیں گے کہ 2024 میں بی جے پی کیلئے سب سے بڑا چیلنج کون ہوگا۔