رام پنیانی
سرسوتی ودیا مندر جالور (راجستھان) کے 9 سالہ طالب علم اندرا میگھوال کی 20 جولائی 2020ء کو اس کے ٹیچر نے خوب پٹائی کی۔ اس کا جرم صرف اتنا تھا کہ اس معصوم لڑکے نے اس گھڑے سے پانی پی لیا جو اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے ٹیچر کیلئے محفوظ تھا۔ یہ بات ہم اندرا کے والدین اور ہم جماعتوں کے بیانات کی بنیاد پر تحریر کررہے ہیں۔ ٹیچر کے ہاتھوں شدید زدوکوب کی وجہ اندرا کے والدین اور ہم جماعت یہی بتاتے ہیں کہ اس نے اپنے اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے ٹیچر کے گھڑے سے پانی پی لیا۔ ایک اور بات یہ گشت کررہی ہے کہ اندرا کی اپنے ایک ہم جماعت سے لڑائی ہوگئی تھی لیکن متوفی لڑکے کے والدین اور اسکول کے دوسرے بچوں نے جو کچھ کہا، وہ حقیقت سے قریب دکھائی دیتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں چھوت چھات کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ اسی طرح سرکاری نظام سربراہی آب (سرکاری نلوں) تک رسائی کا حق حاصل کرنے کی جو جدوجہد تھی، اسے بھی کئی مرحلوں سے گذرنا پڑا۔ 4 اگست 1923ء کو بمبئی قانون ساز کونسل نے دلت بچوں کیلئے ریاست کی جانب سے فنڈنگ کئے گئے اسکولس شروع کئے۔ ان کیلئے آبی وسائل کا انتظام کیا۔ دھرم شالاؤں کا قیام عمل میں لایا۔ یہاں تک کہ ان لوگوں کیلئے جنہیں معاشرہ میں اچھوت کہا جاتا تھا، عدالتیں اور ڈسپنسریز قائم کی اور بمبئی قانون ساز کونسل کے اس فیصلے کو ایک تاریخی فیصلہ کہا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد 19 مارچ 1927ء کو امبیڈکر نے جو سماجی انصاف کی پرزور وکالت کیا کرتے تھے اور زندگی بھر انہوں نے سماجی انصاف کی بات کی، مہاڈ چودار تالاب تک مارچ کیا تاکہ پانی پئیں لیکن ان کے گروپ کی اس کوشش کو ناکام بنانے ان لوگوں کو شدید زدوکوب کیا گیا اور پھر اس تالاب کی صفائی کی گئی، اسے پاک کیا گیا۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی تحریک دیکھتے ہی دیکھتے شہرت اختیار کرگئی۔ دلتوں میں اس کا اثر ہونے لگا اور اچھوتوں کو اپنی حالت زار کا احساس ہونا شروع ہوگیا۔ وہ جان گئے کہ معاشرہ میں اعلیٰ ذات کے لوگ کس طرح ان کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں تالابوں، کنٹوں وغیرہ سے پانی پینے کی بھی اجازت نہیں، اگر وہ پانی پیتے بھی ہیں تو اعلیٰ ذات کے گتہ دار یہ سمجھتے ہیں کہ اچھوتوں نے تالاب کا پانی گندہ کردیا ہے اور پھر اس تالاب یا ذخیرہ آب کو پاک کیا جاتا۔
1930ء میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے ناسک میں واقع کلارام مندر میں داخل ہونے کی کوشش کی، دوبارہ انہیں وہاں بھی اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت تک ہندو مہا سبھا موجود تھی اور 1925ء میں ’’آر ایس ایس‘‘ کا قیام بھی عمل میں آیا لیکن ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے سماجی مساوات کیلئے جو جدوجہد شروع کی، اس کی تائید کیلئے ہندو مہا سبھا آگے آئی اور نہ ہی آر ایس ایس نے اس کی حمایت کی، وہ مہاتما گاندھی ہی تھے جنہوں نے 1933ء سے چھوت چھات کے خاتمہ کے کاز کو آگے بڑھایا۔ اس کے برعکس آر ایس ایس کے دوسرے سرسنچالک گولوالکر نے بعد میں اپنی کتاب میں وارنا کاسٹ کو برقرار رکھا۔ اس کتاب کا نام “We or Our Nationhood Defined” ہے جو آپ کی سہولت کیلئے تحریر کررہا ہوں، اسی طرح کا حال دین دیال اپادھیائے کا رہا۔ وہ بھی ہندوتوا قوم پرستی کے ایک بہت بڑے نظریہ ساز تھے۔ انہوں نے ہندوتوا قوم پرستی کے تصورات کا جو سیٹ تیار کیا، اسے Integral Humanism کا نام دیا۔ اس میں بھی انہوں نے ذات پات کی درجہ بندیوں کے بارے میں بحث کی۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ چھوت چھات کے خاتمہ کی جدوجہد امبیڈکر سے شروع ہوتی ہے، لیکن اس میں شدت جالور المیہ کے بعد دیکھی جارہی ہے۔ کچھ عرصہ تک امبیڈکر کی جدوجہد سست روی کا شکار ہوئی لیکن بعد میں اس میں تیزی آئی۔
جہاں تک دلتوں کے خلاف مظالم کا سوال ہے، یہ ہمیں معاشرہ کا آئینہ دکھاتے ہیں۔ کئی دہوں کی کوششوں کے باوجود دلتوں پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے حالانکہ چھوت چھات کے خلاف سخت قوانین بنائے گئے ان قوانین کے باوجود دلتوں کو ذلیل و رسواء کرنے کا رجحان اب بھی موجود ہے۔ دلتوں پر مظالم کے انسداد سے متعلق قانون اور اس کی دفعات بہت موزوں و مناسب ہے لیکن لگتا ہے کہ وہ صرف پیپر پر بہت زیادہ پراثر دکھائی دیتے ہیں۔ عملی طور پر حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ دلتوں اور قبائیلیوں کی تنظیموں کے قومی وفاق کے مسٹر اشوک بھارتی کی جانب سے تیار کردہ ڈاٹا ہمیں بتاتا ہے کہ دلتوں کے خلاف مظالم کے 7 لاکھ سے زائد واقعات پیش آئے۔ واضح رہے کہ اشوک بھارتی نے یہ ڈاٹا 1991ء تا 2008ء NCRB کی جاری کردہ سالانہ رپورٹس کی بنیاد پر تیار کیا تھا۔ اس میں جہاں دلتوں پر مظالم کے واقعات کی تعداد بتائی گئی۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ گزشتہ دو دہوں میں 38 ہزار دلت خواتین و لڑکیوں کی عصمت ریزی کی گئیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں دلتوں کے خلاف فی گھنٹہ 5 سے زیادہ مظالم کے واقعات پیش آئے۔ جیوتی راؤ اور امبیڈکر چھوت چھات اور ذات پات پر مبنی امتیاز کے خلاف تھے جبکہ سرسوتی ودیا مندر جیسے اسکولس، ذات پات پر مبنی درجہ بندی کے حق میں تھے۔ اس ضمن میں گاندھی کا ذکر کرنا ضروری ہوگا جنہوں نے ذات کی بنیاد پر امتیاز اور چھوت چھات کے خلاف 1933ء سے اپنی کوششوں کا آغاز کیا اور اس سماجی لعنت کے خاتمہ کی جان توڑ کوشش کی۔ وہ امبیڈکر کے اثر اور ان کے اِدراک کا نتیجہ تھا کہ گاندھی جی نے ’’وارنا‘‘ذات پات پر مبنی عدم مساوات اور چھوت چھات پر توجہ مرکوز کی اور اس کے خاتمہ کو زیادہ اہمیت دی۔ جالور سانحہ کے کئی ایک پہلوؤں پر اب بھی جس چیز کو نظرانداز کیا جارہا ہے، وہ ایک سرسوتی ودیا مندر میں پیش آیا واقعہ ہے۔ سرسوتی ودیا مندر اسکولس کی ایک بہت بڑی Chain کا حصہ ہے اور اسکولی نظام میں بھی اس کا اچھا خاصا حصہ پایا جاتا ہے۔ سرسوتی ودیا مندر کو چلانے والوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی تمام تر توجہ شکھشا (تعلیم) اور سنسکار پر ہے۔ یہ لفظ سنسکار کا ترجمہ مشکل ہے۔ اس کے معنی تعین کے ہیں اور ہندوستانی تناظر میں یہ برہمن قواعد کو لاگو کرنے کا دوسرا نام ہے۔ آپ کو بتادیں کہ سرسوتی ودیا مندر اسکولس 1952ء سے ودیا بھارتی چلاتی ہے۔ جنتا پارٹی حکومت کے دوران جب بھارتیہ جن سنگھ جو بی جے پی کا سابقہ اوتار ہے، اس کا حصہ تھی، واجپائی اور اڈوانی جیسے اس کے لیڈران وزارت میں شامل تھے ودیا بھارتی (1977ء تا 1978ء) میں ایک باقاعدہ ایک تنظیم بن گئی۔ آج یہ اسکولس تعلیمی نظام کا ایک اہم حصہ ہیں اور بڑی خاموشی سے سنہرے ماضی کے اقدار کی بحالی کا کام کررہے ہیں۔ یہ اقدار ذات پات اور صنفی درجہ بندی سے متعلق ہے۔ یہ اسکولس ہندوستان کے جملہ اسکولس کا 2% ہیں اور تعلیمی شعبہ کی سب سے بڑی این جی او غیرسرکاری رضاکارانہ تنظیم ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آج سماجی رجحانات تضاد سے بھرے پڑے ہیں، ایک طرف امبیڈکر کے خیالات و نظریات اور اقدار سے زبانی ہمدردی کی جارہی ہے اور دوسری طرف ودیا بھارتی کی جانب سے چلائے جارہے اسکولوں میں سنسکاروں پر توجہ دی جارہی ہے جس کی جڑیں ان اقدار میں گہرائی تک پیوست ہیں جو وارنا جاتی اور چھوت چھات کا باعث بنتے ہیں۔ جالور سانحہ اس کی تازہ مثال ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان اسکولوں میں دلت طلباء کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے۔