ویجلنس انفورسمنٹ اینڈ ڈیزاسسٹر مینجمنٹ کے متعدد اعلانات کھوکھلے ثابت ، پریشان حال عوام کا کوئی پرسان حال نہیں
حیدرآباد۔ شہر میں بارش کے پانی کی نکاسی اور بارش سے ہونے والے نقصانات سے شہریوں کو محفوظ رکھنے اور ان کی شکایات کو فوری حل کرنے میں مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ شہر حیدرآباد میں موسلا دھار بارش کی پیش قیاسی کے بعد مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے شعبہ ویجلنس انفورسمنٹ اینڈ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی جانب سے متعدد اعلانات کئے گئے اور کہا گیا کہ 90 ٹیموں کو متحرک رکھا گیا ہے اور کسی بھی طرح کی ہنگامی صورتحال پر فوری قابو پانے کے لئے جی ایچ ایم سی تیار ہے لیکن چند گھنٹوں کی بارش نے شہر حیدرآباد کو تالاب میں تبدیل کردیا اور شہریو ںکا کئی گھنٹوں تک کوئی پرسان حال نہیں رہا۔ شہر حیدرآباد کے پرانے شہر کے علاقوں میں منتخبہ عوامی نمائندے سڑکوں پر نکل آئے لیکن ان کی جانب سے بھی رابطہ قائم کئے جانے پر عہدیداروں اور ایمرجنسی عملہ کی جانب سے جواب نہیں دینے کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ پرانے شہر کے علاقوں جہاں پانی جمع ہونے اور مکانات میں پانی داخل ہوجانے کی شکایات کے لئے جی ایچ ایم سی کی جانب سے جاری کئے جانے والے فون نمبرات پر رابطہ کی کوششیں بھی ناکام رہیں۔ دونوں شہروں حیدرآبادو سکندرآباد کے کئی علاقوں میں پانی جمع ہونے کے علاوہ درختوں کے گرنے کی شکایات کے لئے عوام کی جانب سے ان فون نمبرات پر رابطہ کی کوشش کی جا تی رہی لیکن انہیں اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کی جانب سے بارش کی رفتار کو مورد الزام قرار دیتے ہوئے خود کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ محکمہ موسمیات کی جانب سے ریڈ الرٹ جاری کئے جانے کے باوجود پرانے شہر کے کئی علاقوں میں پانی جمع ہونے کے بعد بھی ایمرجنسی عملہ نہیں پہنچ پایا۔ 
عوام نے شہر حیدرآباد میں بارش کی پانی نکاسی کے نامناسب انتظامات کے لئے مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد اور محکمہ آبرسانی کو ذمہ دار قرارد یتے ہوئے کہا کہ نالوں اور ڈرینیج کی صفائی کو اگر قبل از وقت بہتر بنانے کے اقدامات کئے جاتے تو یہ صورتحال نہ ہوتی اور نہ ہی شہر حیدرآباد میں اتنی تباہی ہوتی۔ دونوں شہروں حیدرآباد وسکندرآباد سے عوام نے اس بات کی شکایات کی کہ ہزاروں مرتبہ فون کرنے کے بعد بھی انہیں مدد حاصل نہیں ہوئی ہزاروں لوگوں کو جی ایچ ایم سی کی جانب سے جاری کئے جانے والے نمبرات پر رابطہ ہی ممکن نہیں ہوسکا جبکہ 100 نمبر پر ہزاروں کی تعداد میں شکایات موصول ہوتی رہیں جو کہ جی ایچ ایم سی کو منتقل کی گئی ۔
