پاکستانی فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوا کی ہندوستان کو پیشکش

   

شیکھر گپتا
گزشتہ جمعرات کو پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوا نے اسلام آباد سلامتی مذاکرات میں 13 منٹ کا جو خطاب کیا، اس پر ہندوستان میں اہم شخصیتوں کا پہلا ردعمل شاید ہی ایک جماہی سے زیادہ کچھ ہوسکتا ہے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کو ماضی میں جو کچھ ہوا، اسے دفن کرکے ایک نئی شروعات کرنی چاہئے اور جہاں تک امن کے میدان کا سوال ہے، دونوں ملکوں کے مفادات اس میدان میں داؤ میں لگے ہیں۔ اس لئے انہیں اپنی معاشی حالتوں پر توجہ دینی چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح کی باتیں کیا ہر پاکستانی رہنما چاہے وہ منتخبہ ہو یا نہ ہو، کبھی نہ کبھی کہہ چکا ہے اور وہ آپ کی پیٹھ میں خنجر بھی گھونپ چکا ہے، اس میں نئی بات کونسی ہے۔
میوچول فنڈ کے اشتہارات میں جو نعرے، محاورے یا جملے استعمال کئے جاتے ہیں، اس میں تھوڑا سا ردوبدل کریں تو کہا جاسکتا ہے کہ اگر ماضی، مستقبل کی کارکردگی کا واحد گائیڈ ہے تو پاکستان کے بارے میں بات کرنا بیکار ہے۔ بہتر یہی ہے کہ کچھ اور رائفلیں خریدیں اور لائن آف کنٹرول پر بیٹھ جائیں۔ اسی لئے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تعطل کو کیسے ختم کیا جائے؟
اس سوال کا جواب یہ نہیں ہوسکتا کہ انہیں بم سے اُڑا کر پتھر کے دور میں پہنچادیا جائے۔ کارگل آپریشن ، آپریشن پراکرم اور پلوامہ ؍ بالاکوٹ کے بعد ہم جانتے ہیں کہ سخت و ترش باتیں کرنے کیلئے مشہور امریکی سلامتی کے سفارت کار رچرڈ آرمٹیج نے 9/11 کے بعد بھی پاکستان کو یہ دھمکی دی تھی کہ وہ سیدھا ہوجائے، سدھر جائے، حالانکہ ان کی دھمکیاں صرف بولنے کیلئے تھیں، عملی اقدامات کا اُن سے دور دور تک کا واسطہ نہیں تھا۔
اس کے بعد کہ 20 برسوں میں امریکہ، افغانستان کے ایک بڑے حصے کو متعدد مرتبہ پتھر کے دور میں پہنچا چکا ہے۔ امریکی فضائیہ کی مسلسل بمباری سے افغانستان کے بیشتر حصے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔
فوجی، سفارتی، سیاسی یا معاشی طاقت سے کوئی چیز حاصل کرنے کا سوال ہی نہیں ہوتا۔ جاریہ ماہ کے اوائل میں ہندوستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل وی پی ملک نے ’’دی پرنٹ‘‘ کے ’’آف دی کفس‘‘ پروگرام میں مجھ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ آج فوجی طاقت کے زور پر پاکستانی مقبوضہ کشمیر یا اکسائی چین علاقائی مقاصد حاصل کرنا ناممکن نہیں ہے۔ جہاں تک صلاحیتوں کا سوال ہے، ایسی کسی بھی مہم کو دنیا قبول نہیں کرے گی اور آپ کچھ میل ہی پیش قدمی کریں گے کہ آپ کو جنگ بندی کیلئے مجبور کردیا جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ میرے الفاظ ہیں، جنرل ملک کے نہیں۔ تو یہاں سے ہم آگے کہاں جارہے ہیں؟ اور پہلا سوال تو یہ ہے کہ ہم اس مقام پر پہنچے کیسے؟
ایک اور پاکستانی جنرل جب یہ کہتا ہے کہ گزرے ہوئے ماضی کی تلخ یادوں کو دفن کردوں اور آگے بڑھو تو اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان گزرے ہوئے وقت کو فراموش کردے اور آگے بڑھے جبکہ پاکستان ہمیں نقصان پہنچاتا رہے۔جو لوگ ایک ہی دشمن سے لڑنے میں اپنی زندگیاں وقف کرچکے ہیں، ان کیلئے اس جذبہ و احساس کو سمجھنا آسان ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ 2021ء میں کسی ملک کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ کچھ حاصل کرنے کیلئے دوسرے ملک کو تباہ کرڈالے۔ خاص کر تب جب دونوں ملک پڑوسی ہوں، دونوں ملکوں میں قوم پرستی کا جنون ٹھاٹے مار رہا ہو اور دونوں کی افواج جوہری طاقت سے لیس ہو۔ کوئی بھی یہاں آرمینیا سے آذربائیجان یا یوکرین سے روس جیسا بننا نہیں چاہتا۔ ہمیں تخلیقی انداز میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ سرد جنگ ختم کرنے کے مذاکرات میں رونالڈ ریگن نے میخائل گوربا چوف سے ایک سطری بات کی تھی۔ بھروسہ کریں مگر جانچ بھی کرلیجئے ’’پاکستان کے معاملے میں ہم اس ہدایت کو اس طرح اُلٹ کر دیکھ سکتے ہیں کہ بھروسہ مت کیجئے جانچ کرلیجئے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ راولپنڈی (میں جان بوجھ کر اسلام آباد کا نام نہیں لے رہا ہوں) کی جانب سے کی جانے والی ہر پہل پر شک کرتے ہوئے جانچ ضرور کرلیجئے۔ تب ہی ہم اپنے گہرے شک کو سپنے میں چھپائے رکھ کر بھی اپنے دماغ کا استعمال کرتے ہوئے جرنیلوں کے بہانوں میں پوشیدہ پیامات کو پڑھ پائیں گے۔ یہ بیان بڑی خوش مزاج سے ٹھیٹ پنجابی لہجہ میں دیئے گئے جس سے سرحد کے دونوں طرف کے لوگ اچھی طرح واقف ہیں۔
ان تحریری بہانوں سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ پڑوس یا اس علاقہ کے کسی ملک کے داخلی معاملات میں دخل نہ دینے کا وعدہ کیا جارہا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو بڑی معمولی بات ہے لیکن احتیاط سے جانچ کیجئے۔ شمالی علاقہ کے پاکستانی کمانڈر کو سرینگر کے بادامی باغ میں گولف کھیلنے کیلئے جلد بازی میں کوئی مدعو کرنے نہیں جارہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ کشمیر کا ذکر کرنا نہیں بھولے، لیکن اس میں ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے کہا کہ تعلقات میں بہتری بے شک اس بات پر منحصر ہوگی کہ ہندوستان اپنے کشمیر میں معقول ماحول بنانے کیا کرتا ہے۔ کشمیر کے اس رسمی ذکر کے ساتھ ہندوستان کو جموں و کشمیر کی 5 اگست 2019ء سے پہلی والا موقف فوری بحال کرنے اقوام متحدہ سلامتی کونسل قرارداد کے مطابق کشمیریوں کے عزت نفس وغیرہ وغیرہ کی یاد دلائی جاسکتی ہے۔