اللہ کا شکر ہے کہ ہمارا لڑکا زندہ واپس مل گیا؛ہم تو مایو س ہو گئے تھے : والد
اورنگ آباد :پاکستانی لڑکی سے ملنے کی خاطر سرحد پار کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بارڈر سیکوریٹی فورس ( بی ایس ایف ) کے ہاتھوں پکڑے جانے والے ذیشان الدین صدیقی کی پولس تحقیقات کر رہی ہے ۔ ذرائع کے مطابق مہاراشٹرا انسداد دہشت گردی اسکواڈ ( آے ٹی ایس) بھی اس سے پوچھ گچھ کرے گی۔ دریں اثناء ذیشان الدین صدیق کے والد نے ذیشان کے ملنے پر اللہ کا شکر اداکرتے ہوئے کہا کہ ہم مایوس اور نااُمید ہوگئے تھے ۔ ذیشان الدین کے والد قاری و حافظ سیلم الدین صدیقی نے ، جو علاقے مراٹھواڑا کے عثمان آباد کے محلے خواجہ نگر کی مدینہ مسجد میں گزشتہ 25 برسوں سے امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں، یو این آئی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” اللہ کا احسان ہے کہ ہمارا بچہ زندہ ہے ۔چاہے پولیس کی حراست میں ہی کیوں نہ ہو۔ ہم نااُمید ہو گئے تھے کہ وہ ملے گا بھی یا نہیں، مگر ڈوبنے سے پہلے ہی اسے بچا لیا گیا۔” اس موقع پر انھوں نے بطور خاص ضلع پولیس ایس پی، مقامی سٹی پولس اسٹیشن کے انسپیکٹر، میونسپل کاونسلرس و دیگر ذمہ داروں کا ذکر کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ” میں ان کی کوششوں کو سلام کرتا ہوں۔اور تہہ دل سے انکا مشکور ہوں۔ ان کی محنت کی بدولت ہی ہمارا بچہ ہاتھ لگا ہے ۔”11 جولائی کی صبح عثمان آباد میں اپنے گھر سے غائب ہونے اور 17 جولائی کو کھاوڑ ا علاقہ میں کانڈوانڈ کے پاس سرحد کے نزدیک بارڈر سیکوریٹی فورس ( بی ایس ایف ) کے ہاتھوں حراست میں لیے جانے کے واقعات کی تفصیل بتاتے ہوئے حافظ سیلم الدین صدیقی نے کہا کہ وہ 11 تاریخ کی صبح ناشتہ کرنے کے بعد موبائل کا چارجر لانے کے لیے باہر گیا تھا۔
” لاک ڈاؤن کے سبب وہ گھر سے باہر زیادہ کہیں آتا جاتا نہیں تھا، جب وہ 11 بجے تک واپس نہیں آیا تو اسے فون لگایا گیا۔ مگر اس کا فون بند تھا۔ جب وہ شام تک بھی نہیں پہنچا تو ہماری تشویش بڑھ گئی، اور ہم نے اسے دوستوں کے پاس اور دیگر سب جگہوں پر تلاش کیا۔ مقامی کونسلر ناضراللہ حسینی سے بھی ربط قائم کیا گیا۔ جس پر انھوں نے اطمنان دلایا تھا کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت ، اور انھوں نے اسے تلاش کرنے میں مدد کی۔تاہم شام تک نہ ملنے پر ہم نے 7 بجے ایف آئی آر درج کرائی۔”حافظ سیلم الدین صدیقی کے مطابق 2 روز بعد انھیں اطلاع ملی کے وہ قریبی واشی نامی مقام پر نظر آیا ۔ ” ہم اس کی تلاش میں وہاں گئے ، بعد میں 13 جولائی کو اس کی تلاش میں ہم ناسک تک گئے ، مگر ہمارے ہاتھ مایوسی ہی لگی”۔