عائشہ صدیقہ
اسلام آباد میں یہ خبر مشہور ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور لیفٹننٹ جنرل فیض حمد نے حال ہی میں سعودی عرب کا دورہ کیا اور ریاض میں تین دن مقیم رہے لیکن ان کی ملاقات ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان سے نہیں ہوسکی۔
دونوں وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی کے ساتھ سعودی عرب کے دورہ پر گئے تھے۔ وزیر خارجہ پاکستان نے سعودی عرب کے خلاف سخت لب و لہجہ میں تبصرہ کیا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ سعودی عرب اور پاکستان کا اتحاد خطرہ میں پڑ جائے گا لیکن سعودی عرب سے 6 ارب امریکی ڈالر مالیتی قرضے کی وجہ سے جس میں سے تین ارب امریکی ڈالر مالیتی قرض کی رقم اسلام آباد نے بیرونی زرمبادلہ کی شکل میں حاصل کی اور تین ارب امریکی ڈالر مالیتی قرض واجبات کی ادائیگی میں صرف کئے۔
اعلیٰ سطح کے دونوں افراد جن کا تعلق پاکستانی دفاعی شعبوں سے ہے پاکستان واپس ہوچکے ہیں۔ اسلام آباد نے ریاض کے نقشہ پر اعتراض کیا تھا نہ صرف قریشی نے اپنی وزارت بچالی بلکہ انہوں نے چین پر واصح بھی کردیا کہ وہ اہم کانفرنس میں شرکت کے لئے چین جارہے ہیں۔ انہوں نے اشارہ دیا تھا کہ سعودی عرب کے بدلتے ہوئے پاکستان کے ساتھ رشتے ریاض کی دفاعی اہمیت کی بنیاد پر جانچے جائیں گے۔
پاکستان نے قبل ازیں دسمبر 2019 کے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے بیان پر معمولی ردعمل ظاہر کیا تھا لیکن اس بار اس نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ ملائیشیا میں چوٹی کانفرنس میں شرکت کے اپنے موقف پر نظرثانی کریں۔ سعودی عرب نے اس چوٹی کانفرنس کے بارے میں اپنے موقف پر پہلے ہی نظرثانی کردی تھی۔
پاکستان۔ سعودی روابط
گزشتہ چند ہفتوں میں جو تبدیلیاں آئی ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ سعودی عرب سے ترک تعلق یا اس کے برعکس کیا گیا ہے۔ پاکستان اور ریاض دونوں نے ایک دوسرے کے ملک میں سرمایہ کاری کی ہے۔ پاکستان کی فوج سعودی عرب کے شاہی خاندان کے تحفظ کے لئے اور ان کی فوج کو تربیت دینے میں اہم کردار ادا کرچکی ہے اور یہ کردار 1960 کی دہائی کے وسط سے روایتی طور پر جاری ہے۔ سعودی عرب کے شاہی خاندان نے ہمیشہ پاکستان کی فوج کو مصر یا دیگر عرب ممالک کی افواج پر ترجیح دی ہے۔
فی الحال سعودی عرب میں تین ہزار تا پانچ ہزار پاکستانی فوجی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ جنرل راحیل شریف کی زیر قیادت سعودی عرب کا مخالف دہشت گردی اتحاد قائم ہے۔ میجر جنرل خاور حنیف سعودی وزارت دفاع کے مشیر مقرر کئے گئے ہیں۔ سعودی عرب پاکستان کے معاشرہ اور حکومت میں مسلسل سرمایہ کاری کرتا رہا ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیادیں
پاکستان نے سعودی عرب کی قدر و قیمت کا ازسر نو تعین کیا ہے۔ اس کی خارجہ پالیسی کے تین اہم مقاصد ہیں (۱) ہندوستان کی مخالفت (۲) اہم علاقائی ملک کی حیثیت اختیار کرنا اور (۳) مالی امداد اور دیگر ذرائع حکومت کے انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے لئے استعمال کرنا۔ ایک مسلم بلاک قائم کرنا جو ان مقاصد کی مسلسل حمایت کرتا رہے۔
سعودی عرب کے لئے پاکستان اہم سماجی ۔ سیاسی اہمیت رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ پاکستان کو مالیہ فراہم کرنے والا ملک بھی ہے۔ ایران بھی پاکستان میں بڑے پیمانے پر مالیہ فراہم کرنے والا ایک اور ملک رہ چکا ہے۔ درحقیقت صیانت کے لحاظ سے وہ سعودی عرب کی بہ نسبت زیادہ اہم ہے۔ پاکستان ایران کی دفاعی اہمیت کی بنیاد پر 1960 اور 1970 کی دہائی سے اس کا ایک اہم حلیف رہ چکا ہے۔ ایران نے شاہی حکمرانی کے دور میں اس نے پاکستان کو 1965 کی جنگ کے دوران مالی امداد فراہم کی تھی۔ 1965 کے بعد ایران کے بادشاہ پاکستان کی صیانت کو خود اپنا بنیادی مسئلہ سمجھتے تھے اور انہوں نے امریکہ اور اسرائیل سے پاکستان کو ہتھیاروں کے حصول میں بے حد مدد کی۔
1960 کی دہائی کے اواخر میں شاہ ایران پاکستان کے بارے میں مایوس ہوگئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اس وقت کے سفیر پاکستان جنرل حسن پکراوان کے توسط سے صدر جنرل ایوب خان کو ایک پیغام روانہ کیا تھا جس میں پاکستان کی جانب سے ایران کی مخالفت اور مصر کے صدر ناصر کی تائید کی شکایت کی گئی تھی۔ صدر پاکستان نے کہا تھا کہ وہ اقوام متحدہ میں عرب ممالک کی مسئلہ کشمیر کے سلسلہ میں تائید چاہتا ہے اور ایران کے خلاف عربوں کی منظم تائید کا خواہاں ہے۔ 1970 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی پاکستان کی یہی پالیسی جاری رکھی۔
1960 کی دہائی کے وسط سے پاکستان نے اپنے تعلقات کا ازسرنو دفاعی اعداد و شمار کی روشنی میں تعین کیا جبکہ اسے ایران سے مالی امداد بلوچستان میں بغاوت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہنوز جاری تھی۔ اسی وجہ سے عالم عرب سے پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی اور ایران سے مدد کے حصول کو عالم عرب میں نمایاں اہمیت دی جانے لگی۔ پاکستان نے ہندوستان کے ساتھ ایران کے تعلقات کو اپنے پیش نظر نہیں رکھا تھا۔
ہندوستان کا منظرنامہ میں داخلہ
1960 اور 1970 کی دہائیوں میں عالم عرب خاص طور پر خلیجی ممالک میں سے سعودی عرب پر ہندوستان کا اثر و رسوخ زیادہ ہوگیا لیکن اس کے فوری بعد ہندوستان نے نہ صرف سعودی عرب کے ساتھ اپنے روابط میں کمی کی بلکہ ایک برطانوی سفارت کار کے بقول ’’نہرو کو خوف تھا کہ (سیاسی اعتبار سے) وہ خلیجی ممالک اور سعودی عرب سے قریب ہو رہے ہیں‘‘۔
پاکستان نے نہ صرف ہندوستان کے تخلیہ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی خلاء کو پر کیا بلکہ سعودی عرب کے شاہی خاندان کا تحفظ کرنے میں اہم ترین مقام حاصل کرلیا۔ کئی برس تک باہمی تعلقات پاکستان اور اسلام آباد کی خارجہ پالیسی کی بنیاد پر جاری رہے۔ 1980 کی دہائی میں جبکہ افغانستان پر سویت افواج کا قبضہ تھا عالم عرب کو پاکستان کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کرنا پڑا۔ نواز شریف جو اس وقت برسر اقتدار تھے سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کے مقاصد خاص طور پر یمن کے بارے میں اس کے رویہ سے متفق نہیں تھے جس کی وجہ سے پاکستان نے ہندوستان کے ساتھ سعودی عرب کے دوبارہ تعلقات قائم کرنے کو اہمیت نہیں دی۔ 1990 کی دہائی سے ہندوستان کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں اضافہ ہوا اور 2000 کے بعد نریندر مودی حکومت میں ان تعلقات کو مزید فروغ حاصل ہوا۔
پاکستان، ہندوستانی معیشت کے فروغ پر جو سعودی عرب کے لئے انتہائی پرکشش تھی کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرسکا کیونکہ پاکستان اپنی فوج پر اس سلسلہ میں زیادہ انحصار کرتا تھا۔ سعودی عرب کی ترجیحات میں مزید تبدیلی آگئی ہے جبکہ سعودی عرب کی حکومت کا رویہ بدل گیا ہے اور پاکستان مزید پسماندہ حیثیت اختیار کرگیا ہے۔