بنگلورو۔ آسٹریلیا اور پاکستان جب جمعہ کو یہاں ایک دوسرے سے ملیں گے، تو آسٹریلیا اور پاکستان کو اپنی ورلڈ کپ مہم میں نئی جان ڈالنے کے لیے بیٹنگ اور بولنگ میں بہتر مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کی طاقت دباؤکا سامنا کرتے ہوئے بے خوف کرکٹ کھیلنے کی صلاحیت میں مضمر ہے لیکن اس ورلڈ کپ میں وہ حقیقی دباؤ کے پہلے مرحلے پر ہندوستان کے خلاف میچ میں ناکام رہے۔ حیدرآباد میں اپنے دوسرے میچ میں 345 رنزکا وہ زبردست تعاقب سری لنکا کے خلاف ہوا۔ اب آسٹریلیا پاکستان کو ایک اور حقیقی دباؤ پیش کرسکتا ہے۔ اپنی ہی ہنگامہ آرائی میں ڈوبی ہوئی ایک ٹیم، پانچ بار کے چمپئن ہندوستان نہیں ہیں لیکن وہ ایک حریف ہیں جن کا مذاق نہیں اڑایا جاسکتا ۔ پاکستان یہ اچھی طرح جانتا ہیکہ آسٹریلیا کو ونڈے میں 69-34 اور 50 اوورکے ورلڈ کپ میں 6-4 کی برتری حاصل ہے۔ پاکستانی طاقت کو اپنی دفاعی حکمت چھوڑنی ہوگی اور اس کا آغاز اوپر سے ہونا چاہیے۔ اوپنر امام الحق نے تین میچوں میں صرف 63 رنز بنائے ہیں، اور بائیں ہاتھ کے کھلاڑی کو عبداللہ شفیق کو مزید ٹھوس تعاون دینے کی ضرورت ہے، جنہوں نے فخر زمان کی جگہ لی ہے۔انہیں کپتان بابر اعظم کی اتار چڑھاؤ والی فارم میں ایک اور مسئلہ درپیش ہے۔ بابر پاکستان کی بیٹنگ کے اہم مرکز ہیں اور انہوں نے ہندوستان کے خلاف نصف سنچری بنائی، لیکن اس سے پہلے نیدرلینڈز اور سری لنکا کے خلاف دو مرتبہ عام انداز میں آؤٹ ہوئے۔ان دونوں کو آسٹریلیا کے خلاف بہت زیادہ حصہ اداکرنا ہوگا، آسٹریلیا کے پاس تیز رفتار حملہ ہے جو ممکنہ طور پر کسی بھی بیٹنگ لائن اپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ انہیں محمد رضوان پر مڈل آرڈر کے زیادہ انحصارکا بھی حل تلاش کرنا ہوگا۔ ہالینڈ کے خلاف نصف سنچری بنانے والے سعود شکیل اور ہارڈ ہٹنگ افتخار احمد کو وہ راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو انہیں مستقل مزاجی کی طرف لے جائے۔ نسیم شاہ کی غیر موجودگی میں، پاکستان 23 سالہ شاہین شاہ آفریدی کے کندھوں پر بہت زیادہ جھک گیا ہے لیکن بائیں ہاتھ کے نسیم ٹورنمنٹ میں اپنے بہترین فام کے قریب کہیں نہیں ہیں۔آفریدی کو اپنی رفتار اور سوئنگ کو دوبارہ دریافت کرنا ہو گا۔شاداب خان، ان کے نائب کپتان اور لیگ اسپنر ورلڈ کپ کے اس ایڈیشن میں نہ توگیند اور نہ ہی بیٹ سے چمک سکے ہیں۔ اگر کل لیگی اسامہ میر ان کی جگہ آجائیں تو یہ کوئی بڑی حیرت کی بات نہیں ہوگی۔میدان کے دوسرے سرے پرآسٹریلیا اس سے بھی بڑے مسائل میں ہے۔ ہندوستان اور جنوبی افریقہ کے خلاف شکستوں نے انہیں ایک غیر متزلزل موقف میں ڈال دیا ہے جہاں ایک اور شکست ان کے سیمی فائنل کے عزائم کو مزید پست کر سکتی ہے۔ سری لنکا کے خلاف ان کی جیت صرف ایک چھوٹا قدم ہے کیونکہ انہیں ناک آؤٹ مرحلے تک پہنچنے کے لیے مزید سخت امتحانات سے گزرنا ہے۔