رام پنیانی
جنوری 2020ء کی شروعات میں پاکستان سے چند پریشان کن واقعات کی اطلاع ملی۔ ایک، ننکانہ صاحب پر حملہ ہے جو مقدس گردوارہ ہے جہاں سنت گرو نانک صاحب کا جنم ہوا تھا۔ ایک رپورٹ میں بتایا کہ اس مقام کی بے حرمتی کی گئی جبکہ دیگر بات بھی سامنے آئی کہ یہ دراصل دو مسلم گروہوں کے درمیان جھگڑا تھا۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اس واقعہ کی مذمت کی اور اصل ملزم عمران چشتی کو گرفتار کرلیا گیا۔ دیگر واقعہ ایک سکھ لڑکی جگجیت کور جو (گردوارہ میں مقدس گرو گرنتھ صاحب پڑھنے والے) پاٹھی کی بیٹی ہے، اس کا اغوا اور مذہب کی تبدیلی سے متعلق ہے۔ ایک اور واقعہ میں ایک سکھ نوجوان رویندر سنگھ جو اپنی شادی کیلئے شاپنگ کررہا تھا، اسے پشاور میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔
یہ قابل مذمت حملے پاکستان میں سکھ مائنارٹی کے خلاف پیش آئے اور بی جے پی کو زرین موقع ہاتھ لگا اور اس نے بیان کہ ایسے واقعات ہی ہیں جو شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کو حق بجانب ٹھہراتے ہیں۔ اتفاق سے سی اے اے ہی ایسا ایکٹ ہے جو امتیازی ہے اور شہریت کو مذہب کے ساتھ جوڑتا ہے، جو ہندوستانی دستور کے اُصولوں کے خلاف ہے۔ ہمارے پاس لگاتار مباحث ہورہے ہیں اور پروپگنڈہ ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی آبادی میں زبردست کمی ہوئی ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے بیان کیا کہ پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی تقسیم ہند کے وقت 23% سے گھٹ کر موجودہ طور پر 3.7% ہوگئی ہے۔ اور بنگلہ دیش میں یہ 22% سے کم ہوتے ہوئے اب 8% ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مذہبی اقلیتوں کو ان دونوں ملکوں میں سازگار حالات کا سامنا نہیں ہے، لیکن جو اعداد و شمار پیش کئے گئے وہ بالکلیہ بعید از حقیقت ہیں۔ ان اعداد و شمار میں تکلیف دہ نقل مکانی کو ملحوظ نہیں رکھا گیا جو تقسیم ہند کے وقت اور بعد میں تشکیل بنگلہ دیش کے وقت پیش آئی۔ پاکستان میں مردم شماری مختلف صورتحال پیش کرتی ہے۔ ان کا پہلا سنسیس 1951ء میں منعقد کیا گیا تھا۔ اس مردم شماری کے مطابق پاکستان (مشرقی اور مغربی ملا کر مجموعی) میں غیرمسلم آبادی کا تناسب 14.2% تھا، جس میں سے ویسٹ پاکستان (موجودہ پاکستان) میں 3.44% اور ایسٹ پاکستان میں 23.2% تھا۔ پاکستان میں 1998ء میں منعقدہ مردم شماری میں یہ تناسب 3.72% ہوگیا۔ جہاں تک بنگلہ دیش کا تعلق ہے غیرمسلموں کا تناسب 23.2 فیصد (1951ء) سے گھٹ کر 2011ء میں 9.6% ہوا ہے۔
پاکستان کی سب سے بڑی اقلیت احمدیہ فرقہ ہے جو تقریباً 4 ملین (40 لاکھ) ہیں اور پاکستان میں انھیں مسلمان تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی اُس وقت کے مشرقی پاکستان میں پاکستان آرمی کے مظالم کے پس منظر میں ہوئی۔ ہندوستان میں رفیوجی افراد کے بارے میں یو این ڈیٹا کے مطابق یہ 2016-19ء کے درمیان 17% بڑھا اور سب سے زیادہ تعداد تبت اور سری لنکا سے آئی۔ اقلیتوں کی حالت ایک طرح سے جمہوریت کی طاقت کا اشاریہ ہوتی ہے۔ اکثر جنوبی ایشیائی ممالک جمہوری اقدار کو مناسب طور پر برقرار رکھنے سے قاصر رہے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریہ کی شروعات جناح کی مثالی تقریر کے ساتھ ہوئی جہاں سکیولرازم پاکستان کا مرکزی اُصول ہونا تھا۔ 11 اگست کی تقریر نے ایک طرح سے واضح کیا کہ مملکتی پالیسی کیا ہونا چاہئے، جس کے مطابق تمام عقیدوں کے لوگ اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کیلئے آزاد ہیں۔ جلد ہی ’دو قومی نظریہ‘ کی منطق اور مسلمانوں کیلئے علحدہ مملکت پاکستان کی تشکیل کا خیال غالب ہوگئے ۔ آرمی نے مداخلت کی اور ڈکٹیٹرشپ نے وقفہ وقفہ سے باگ ڈور سنبھالی۔ جمہوری عناصر کو دبایا گیا اور بدترین مرحلہ بھی آیا جب ضیاء الحق نے مولانا برادری کے ساتھ مل کر مملکت کو اسلامی رنگ دیا۔ آرمی کا پہلے ہی پاکستان میں مضبوط وجود تھا۔ پاکستان کیلئے نعرہ لگایا جانے لگا کہ اس پر حکمرانی تین A کی ہے: آرمی، امریکا اور اللہ (بذریعہ ملا برادری) ۔
بنگلہ دیش میں مختلف مدار پر تبدیلی ہوئی۔ اس کی تشکیل ہی ’دو قومی نظریہ‘ کے تابوت میں کیل کے مترادف ہے؛ کہ مذہب کسی مملکت کی بنیاد ہوسکتا ہے۔ بنگلہ دیش کی شروعات سکیولر ریپبلک کے طور پر ہوئی لیکن فرقہ پرست قوتیں اور سکیولر فورسیس اپنی اجارہ داری کیلئے جدوجہد کرتے رہے اور 1988ء میں یہ بھی اسلامی جمہوریہ بن گیا۔ ایک اور سطح پر میانمار جو ملٹری ڈکٹیٹرشپ کی گرفت میں تھا، جہاں جمہوری عناصر اپنے وجود کا احساس دلانے کی کوشش کررہے تھے، وہاں بھی سخت رسہ کشی دیکھنے میں آئی۔ ڈیموکریسی ہو کہ نہیں، میانمار میں بھی آرمی اور سنگھاس (بدھسٹ سنگ) طاقتور ہیں۔ اس کا نہایت عیاں نتیجہ روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم ہے۔ اسی طرح کا معاملہ سری لنکا میں بھی ہے جہاں بدھسٹ سنگھا اور آرمی کی سیاسی امور میں ٹھوس مداخلت ہے، چاہے حکومت کوئی بھی ہو۔ وہاں مسلم اور عیسائی اقلیتیں زیادہ تر شکار بنتے ہیں جبکہ ٹامل (ہندو، عیسائی وغیرہ) کو نسلی اور مذہبی اقلیتوں کی حیثیت سے بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
ہندوستان میں جمہوریت، تکثیریت اور سکیولرازم کے پھلنے پھولنے کے بہترین امکانات ہیں۔ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے نتیجہ میں حاصل ہونے والا سکیولر دستور، گاندھی جی اور نہرو کی قیادت نے جمہوریت اور سکیولرازم کی جڑوں کی مضبوطی کو یقینی بنایا۔ ہندوستان میں ابھی تک تمام جنوب ایشیائی ممالک میں بہترین جمہوری اوصاف ہیں۔ اس کے باوجود اگرچہ اقلیتوں کی آبادی میں بنیادی طور پر غربت اور ناخوانگی کے سبب اضافہ ہوا، اُن کو مجموعی طور پر حاشیہ پر کردینا معمول ہوگیا۔ یہ صورتحال فرقہ پرست قوتوں کے عروج کے ساتھ ابتر ہوتی گئی جبکہ فرقہ پرست قوتیں اقلیتوں کے خلاف مسائل تلاش کرنے اور پروپگنڈہ میں ملوث ہونے میں مشغول رہے۔ جہاں دیگر جنوب ایشیائی ملکوں کو ہندوستان کی تقلید کرنا چاہئے تھا تاکہ انفراسٹرکچر اور فراخدلی کے سیاسی کلچر پر زیادہ توجہ مرکوز کی جاسکے، آج ہندوستان خود پاکستان کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ ہندوستان کی رجعت پسندانہ روش ان مسائل میں نہایت عیاں ہے جو گزشتہ چند برسوں میں سیاسی گوشے پر غالب رہے ہیں۔ رام مندر، گھر واپسی، لوو جہاد، بیف۔ گائے جیسے مسائل کا عروج اب سی اے اے میں دیکھ سکتے ہیں۔
ہندوستان کا ایسے نظام حکومت کی طرف پلٹنا جس میں مذہب کی شناخت سیاسی منظر پر چھائی ہے، اسے مرحوم پاکستانی شاعرہ فہمیدہ ریاض نے اپنی نظم ’’تم بھی ہم جیسے نکلے‘‘ میں عمدگی سے پیش کیا ہے۔ فرقہ پرست قوتوں کے خلاف مزاحمت کی کوشش پہلے سے ہی مشکل کام ہے، آج یہ زیادہ مشکل بنتا جارہا ہے۔ اس رجحان کو مختلف نام دیئے گئے ہیں: بنیاد پرستی، فرقہ پرستی یا مذہبی قوم پرستی و دیگر۔ بلاشبہ اس کا اصل مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں ہے جس پر ہندوستان کے عظیم سنت اور صوفی روایات میں عمل کیا گیا ہے۔ یہ بنیادی طور پر سیاسی اتھل پتھل کی خاطر مذہب کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
[email protected]