پاکستان تحریک انصاف پر پابندی حکومت کے زیرغور

   

پاکستان ایک اور بحران کی طرف گامزن………..
تاحال پی ٹی آئی کے 7500سے زائد حامی گرفتار، درجن بھر سے زائد ارکان پارلیمنٹ اورسابق وزراء پی ٹی آئی چھوڑ نے پرمجبور

اسلام آباد: پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ 9 مئی واقعات کے بعد تحریک انصاف پر پابندی لگانے پر غور کر رہے ہیں۔اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر ہونے والے حملوں سے لیکر اب تک شواہد مل رہے ہیں کہ تحریک انصاف نے باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ حملے کیے۔انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا جائزہ لیا جارہا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوج کے طاقتور ادارے کو چیلنج کرنے والوں کو اس کے غیظ وغضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماضی میں بھی بعض سیاسی جماعتوں کو پابندیوں کا سامنا رہا لیکن یہ پابندیاں مستقل ثابت نہیں ہو سکیں۔تاہم سیاسی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو تحلیل کرنے کی کوئی بھی کوشش ممکنہ طور پر ملک کو ایک گہرے سیاسی بحران میں دھکیل دے گی۔9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد پرتشدد احتجاج کے دوران پاکستانی فوجی تنصیبات پر حملے کے الزام میں اب تک پی ٹی آئی کے ساڑھے سات ہزار سے زائد اراکین اور حامیوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ پی ٹی آئی کے مطابق اس کے سینکڑوں کارکنوں اور رہنماؤں کو عدالتوں سے ضمانت ملنے کے بعد بھی دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔پاکستانی حکام نے متنبہ کیا کہ پرتشدد مظاہروں میں ملوث مشتبہ افراد کو ملک کی متنازعہ فوجی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ عدالتیں عام طور پر ریاست کے دشمنوں کے لیے مخصوص ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔فوجی تنصیبات پر حملوں کے بعد سے پی ٹی آئی کے ایک درجن سے زائد ارکان پارلیمنٹ، سابق وزراء اور عہدیداران پی ٹی آئی چھوڑ چکے ہیں۔ عمران خان نے زور دے کر کہا کہ ان لوگوں پر پارٹی سے علیحدگی کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔عمران خان گزشتہ سال اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد سے ملکی فوج پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔ اس مہینے کے آغاز پر عمران خان نے فوج پر انہیں اغوا کرنے کا الزام بھی لگایا – یہ ایک ایسا دعویٰ تھا، جس نے فوج کو مشتعل کیا اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اسے مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیا۔کراچی میں مقیم ایک تجزیہ کار توصیف احمد خان نے نشاندہی کی کہ جو بھی پاکستانی فوج کو چیلنج کرتا ہے، اسے ملک کے سب سے طاقتور ادارے کے غصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے مطابق سابق وزیر اعظم کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے اور ان پر دوبارہ انتخاب لڑنے پر پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے۔انہوں نے کہا، ”اس طرح کے دباؤ سے پارٹی متاثر ہو گی۔ مزید لیڈروں کو خان سے علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ لہذا، ایک طرح سے پارٹی کوختم کر دیا جائے گا۔‘‘لیکن فی الحال سابق وزیر اعظم پاکستان کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ایک ماہر تعلیم نور فاطمہ کا خیال ہے کہ ان کی پارٹی پر پابندی سے ان کے حریفوں کو خان سے زیادہ نقصان پہنچے گا۔