نیویارک میں تہذیبی تنظیم کے زیراہتمام اجلاس کے حاضرین سے وزیرخارجہ ایس جئے شنکر کا خطاب
نیویارک ۔ 25 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) ہندوستان کو پاکستان سے بات چیت میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن کسی دہشت گرد سرزمین سے بات چیت نہیں کی جاسکتی۔ وزیرخارجہ ایس جئے شنکر نے نیویارک کی ایک تہذیبی تنظیم کے زیراہتمام جلسہ کے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں دہشت گردی کی ایک پوری صنعت مسئلہ کشمیر سے نمٹنے کیلئے تخلیق کی ہے۔ وہ تہذیبی تنظیم ایشیاء سوسائٹی نیویارک کے زیراہتمام ایک جلسہ کے حاضرین سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہندوستان میں دفعہ 370 کی تنسیخ اور ریاست جموں و کشمیر کی دو مرکز زیرانتظام علاقوں جموں و کشمیر و لداخ میں تقسیم کا فیصلہ کیا تو پاکستان اور چین نے ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہندوستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کے درجہ میں کمی کردی اور ہندوستانی ہائی کمشنر کو نئی دہلی سے واپس طلب کرلیا جبکہ 5 اگست کو جموں و کشمیر کا خصوصی موقف منسوخ کردیا گیا۔ چین نے شدید تشویش ظاہر کی اور تشویش کی صورتحال کو تشویشناک قرار دیا۔ متعلقہ فریقین کو صبروتحمل اور اپنے عمل میں احتیاط اختیار کرنی چاہئے خاص طور پر ایسی کارروائیوں سے گریز کرنا چاہئے جس سے جانبدارانہ طور پر ہندوستان کے داخلی مسائل پر تبصروں کا اظہار ہوتا ہو۔ انہوں نے پرزور انداز میں کہا کہ ہندوستان کو پاکستان سے بات چیت میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن وہ ٹیررسٹان سے بات چیت نہیں کرسکتا۔ اس کے علاوہ انہیں دوسروں پر انحصار نہیں کرنا چاہئے۔ انہیں متحد ہونا چاہئے اور کوئی ایک موقف اختیار کرنا چاہئے۔ جئے شنکر نے دفعہ 370 کی تنسیخ کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کیلئے دوسرے ممالک کی سرحدیں اس سلسلہ میں کوئی مانع نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی سرحد کے اندر کسی کے خلاف تنقید نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ لیکن دوسرے مختلف ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو درحقیقت دہشت گردی کی پوری ایک صنعت تخلیق کرنے کا ذمہ دار ہے اور مسئلہ کشمیر اسی کے ذریعہ حل کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ درحقیقت کشمیر سے بھی زیادہ بڑے عزائم کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی لئے اس ملک میں دہشت گردی کو ایک صنعت کی شکل دے دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان نے جموں و کشمیر کے خصوصی موقف کو برخاست کرنے کا فیصلہ کیا لیکن پاکستان اس کو تخفیف سرمایہ کاری کے نقطہ نظر سے بھی دیکھتا ہے۔ گذشتہ 70 سال سے اس دفعہ کی موجودگی کی وجہ سے ہی کشمیر میں سرمایہ کاری نہیں کی جاسکی اور اس کے ردعمل میں برہمی اور مایوسی کی مختلف اقسام وجود میں آئیں اور انہوں نے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ایک صنعت کی شکل اختیار کرلی۔ اس سوال پر کہ پاکستان نے بہت کچھ کہا ہے اور وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔ جئے شنکر نے کہا کہ یہ کشمیر کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان چاہتا ہیکہ اس کے نمونے کو تسلیم کیا جائے اور وہ یہ بھی جانتا ہیکہ یہ ناقابل عمل ہے۔ آج تک اور اس سے قبل بھی پاکستان کے نمونے پر عمل نہیں ہوسکا۔ وہ دہشت گردی کو اپنی پالیسی بنا چکا ہے اور یہ سرکاری ہنر بن چکا ہے۔ جئے شنکر نے کہا کہ جموں و کشمیر میں کئی سال سے کوئی ترقی نہیں ہوئی کیونکہ مواقع کا فقدان تھا۔ کشمیر باقی پورے ملک سے الگ تھلگ کردیا گیا تھا۔ علحدگی پسندی اور دہشت گردی ہم مانع بن گئے تھے۔ اس سوال پر کہ پاکستان کو کشمیر کے سلسلہ میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ جئے شنکر نے کہا کہ ہم اپنی غلطیوں کی اصلاح کرلیتے ہیں۔ سب سے پہلے پاکستان کو چاہئے کہ خود اپنی فلاح و بہبود کیلئے ایسا کرے۔ اس طرح معمول کا ماحول پیدا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہندوستان اور پاکستان کے اتفاق رائے کا مسئلہ نہیں ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات عجیب و غریب ہیں جس کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ ممبئی شہر پر حملہ کیا گیا حالانکہ ممبئی کشمیر کا حصہ نہیں ہے۔ ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ مسئلہ ہمارے اندازہ سے کہیں بڑا ہے۔
