اسلام آباد: پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مسلسل واپسی کے بعد طالبان کے اقدامات کے لئے ان کے ملک کو‘ذمہ دار’ نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ عمران خان نے افغان میڈیا کے نمائندوں کو دیئے گئے ریمارکس میں کہاکہ طالبان جو کچھ کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے ہیں اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ہم ذمہ دار نہیں اور نہ ہی ترجمان کے ترجمان ہیں۔عمران خان نے پاکستان کو افغانستان کے واقعات سے دور کرتے ہوئے کہاکہ ہم صرف افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ افغانوں کے پاس انتخاب ہے کہ وہ امریکی حمایت یافتہ فوجی حل یا ایک جامع حکومت کے ساتھ سیاسی سمجھوتہ کریں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے ہماری حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ افغان عوام جسے منتخب کریں گے ہمارے اس کے ساتھ بہترین تعلقات ہوں گے ، ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں ہے اور نہ ہی نوے کی دہائی کی طرح اب افغانستان میں تزویراتی گہرائی (اسٹریٹجک ڈیپتھ) جیسی کوئی پالیسی ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں افغانستان گیا ہوں، افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ میرے اچھے تعلقات ہیں اور ہمارے باہمی تعلقات بھی اچھے ہیں لیکن افغان رہنماؤں کے حالیہ بیانات میں افغانستان کی صورتحال کا الزام پاکستان پر لگایا گیا جو بڑی بدقسمتی کی بات ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان کو پہلے امریکہ کے ساتھ اور پھر افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان سے زیادہ کسی ملک نے دباؤ نہیں ڈالا، ہم نے اپنی بھرپور کوشش کی اور کسی ملک نے اتنی محنت نہیں کی جتنی ہم نے کی۔وزیراعظم نے کہا کہ اس بات کی تصدیق امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے بھی کی۔افغانستان میں کھیل کی سرگرمیوں کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ 3 سال کے دوران میرے پاس کھیلوں کے لیے وقت نہیں تھا کیوں کہ دیگر مسائل تھے لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ کرکٹ کی تاریخ میں جتنے کم وقت میں افغانستان میں بہتری آئی وہ کسی اور ملک کی ٹیم میں نہیں آئی۔انہوں نے کہا کہ افغانستان جس مقام پر پہنچ چکا ہے وہاں تک پہنچنے کے لیے دیگر ممالک کو 70 برس لگے ہیں، افغانوں نے بنیادی طور پر مہاجر کیمپوں میں کرکٹ سیکھی جو قابل ستائش ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ میری حکومت کی خارجہ پالیسی گزشتہ 25 برسوں سے میری پارٹی کے منشور کا حصہ ہے اور میرا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ افغانستان کا کوئی عسکری حل نہیں ہے ، ہمیں ہمیشہ کہا گیا کہ بالآخر افغانستان کا مسئلہ سیاسی تصفیے کے ذریعے حل ہوگا، میری حکومت کا 3 سال سے یہی مؤقف ہے جو میں 15 برسوں سے کہہ رہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو پاک فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔دنیا کے تمام ممالک سے بڑھ کر پاکستان، افغانستان میں امن چاہتا ہے کیوں کہ وہاں امن کی صورت میں پاکستان کا وسطی ایشیائی ممالک سے رابطہ ہوگا۔