پاکستان پوری دنیا میں کشمیرمیں حقوق انسانی کی خلاف ورزی کی جھوٹی دہائی دیتا ہوا گھوم رہا ہے، لیکن پاکستانی وزیراعظم عمران خان اپنے ہی ملک میں اپوزیشن کےاحتجاجی مظاہروں کوکچلنے کےلئےفوج کا سہارا لینےکا من بنا چکے ہیں۔ پاکستانی میڈیا میں سامنے آئی رپورٹس کی مانیں توعمران خان کی حکومت راجدھانی اسلام آباد میں اپوزیشن کے احتجاجی مظاہرے کوروکنےکےلئے فوج کا استعمال کرسکتی ہے۔ واضح رہےکہ پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں نےعمران خان پردھوکے سےاقتدارمیں آنے کا الزام لگایا ہے۔ ساتھ ہی ان جماعتوں نےاحتجاجی مظاہرہ کرنےکا بھی اعلان کیا ہے۔
اپوزیشن جماعت جماعت علمائےاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نےاعلان کیا ہے کہ وہ 31 اکتوبرکوحکومت کے خلاف اسلام آباد میں مارچ نکالیں گے۔ ان کے اس مارچ کو سابق وزیراعظم نواز شریف کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ- نواز، پاکستان پیپلز پارٹی، اے این پی اور پختونخوا ملی عوام پارٹی کی حمایت ملی ہوئی ہے۔ اس مارچ کو’آزادی مارچ’ کانام دیا گیا ہے۔ پاکستانی اخبارایکسپریس ٹربیون کی رپورٹ کے مطابق حکومت اپوزیشن جماعتوں کےاس مارچ سے نمٹنے کےلئےحکمت عملی تیارکررہی ہے۔ اس کے تحت فوج کو اسلام آباد میں تعینات کئےجانے پربھی غورکیا جارہا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی رہائش گاہ پراپوزیشن کے اس احتجاجی مارچ کےدوران لاء اینڈ آرڈرکولےکرمیٹنگ ہوئی، جس میں اس سے نمٹنے کے تمام متبادل کوبتایا گیا۔ میٹنگ میں افسران کا کہنا تھا کہ پرامن احتجاج کا لوگوں کوحق ہے، لیکن کسی کواسلام آباد سیزکرنےکا اختیارنہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس دوران حساس سرکاری آفس اورغیرملکی سفارت خانوں کی سیکورٹی پربھی چرچا کی گئی ۔