پاکستان میں بدعنوانی اور دیانت داری کا مقابلہ

   

امجد خان
پاکستان فی الوقت نازک ترین دور سے گذر رہا ہے۔ یہ سوالات بھی اُٹھ رہے ہیں کہ آیا پاکستان ایک ناکام ریاست میں تبدیل ہوچکا ہے؟ اس سلسلے میں عالمی سطح پر بے شمار تجزیہ نگار مختلف خیالات کا اظہار کررہے ہیں، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ پاکستان کو ’’عمران خان‘‘ کی شکل میں ایک دیانت دار اور کرپشن کے خلاف آواز اُٹھانے والا وزیراعظم ملا تھا، لیکن سیاست دانوں کی مفاد پرستی نے عمران خان کی حکومت کو زوال سے دوچار کردیا اور پھر مختلف بدعنوانیوں کے الزامات کا سامنا کررہے ’’شریف خاندان‘‘ کو اقتدار حوالے کردیا۔ پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ ہی ابن الوقت سیاست دانوں کا غلبہ رہا ہے، لیکن اسٹابلشمنٹ کی مداخلت نے بھی جمہوریت کو نقصان پہنچایا۔ جہاں تک پاکستانی سیاست میں عمران خان کی موجودگی اور ان کے اثر و رُسوخ کا سوال ہے، وہ جدوجہد سے پُر رہی ہے۔ 1990ء کے دہے سے ہی سیاسی نظریں عمران خان پر جم گئی تھیں۔ اس سلسلے میں جنرل ضیاء الحق سے لے کر نواز شریف تک کے نام لئے جاسکتے ہیں۔ ایک ایسا بھی دور تھا جب عمران خان اور نواز شریف کافی قربت رکھتے تھے، لیکن آج وہ قربت ایک سیاسی عداوت میں تبدیل ہوگئی ہے۔ عمران خان کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ کچھ کرنا چاہیں تو اس کام کو پورا کرکے ہی دَم لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر کرکٹ کا میدان ہو یا پھر اپنی والدہ شوکت خانم کے نام سے ’’شوکت خانم کینسر ہاسپٹل کا قیام‘‘ اور پاکستانی سیاست کی بساط پر اہم کردار ادا کرنے کا معاملہ ان تمام میں عمران خان نے جنون کی حد تک مظاہرہ کیا اور ہمیشہ سے ظلم و جبر کی ببانگ دہل مخالفت کی۔ پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کے ذریعہ عام لوگوں کی ہلاکت پر عمران خان واحد پاکستانی سیاست داں تھے جنہوں نے ببانگ دہل احتجاج کیا اور امریکی زیرقیادت نیٹو کو یہ احساس دلایا کہ پاکستان میں امریکہ جو کچھ بھی کررہا ہے، وہ بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔ ایک مرحلہ پر عمران خاں نے یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ امریکی شہری مرتے ہیں تو ان کے ورثاء کو لاکھوں ڈالرس بطور معاوضہ عطا کیا جاتا ہے لیکن امریکہ، پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ یا افغانستان کا کوئی بھی شہر ہو، وہاں CIA کے ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونے والے عام شہریوں کو حقیر سا معاوضہ ادا کرتے ہوئے یہ سمجھ لیتا ہے کہ ہم نے غلطی کا کفارہ ادا کردیا۔ عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ابتداء ہی سے امریکی حکومتوں اور ایجنسیوں کی نظروں میں کھٹکتے رہے اور وہ جب اقتدار پر فائز ہوئے تو امریکیوں نے یہ سمجھ لیا کہ عمران خان ایسی شخصیت ہے جو ان کے قابو میں نہیں آسکتی اور نہ ہی وہ امریکی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال کر اپنے ملک اور عوام کا سودا کرسکتے ہیں۔ اپنی حکومت کے زوال سے چند دن پہلے ہی عمران خان نے ایک پراسرار خط باالفاظ دیگر دھمکی کو منظر عام پر لاکر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے حکمرانوں کو حیرت زدہ کردیاتھا۔ حالانکہ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں تھی، کیونکہ امریکہ اور اس کے دوست ملک ، بیرونی حکومتوں کو دھمکیاں دینے کے معاملے میں کافی بدنام ہیں۔ ان کی دھمکیوں سے دنیا کا کوئی ملک محفوظ نہیں رہا۔ اس معاملے میں کرۂ ارض کی ’’ناجائز مملکت اسرائیل‘‘ کو استثنیٰ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے کبھی بھی اسرائیل کو ڈرانے دھمکانے کی جرأت نہیں کی۔ عمران خان نے امریکہ پر واضح طور پر الزام عائد کیا کہ اس (امریکہ) نے پاکستان میں متعین اپنے ایک سفارت کار کے ذریعہ دھمکی آمیز خط روانہ کیا ہے۔ عمران خان کے خیال میں وہ اس طرح کی دھمکیوں سے ڈرنے والے نہیں، لیکن انہیں اب احساس ہوگیا ہے کہ امریکہ کسی بھی ملک میں حکومت بدل سکتا ہے اور اس کیلئے بدعنوان سیاست داں بہ آسانی آلہ کار کا رول ادا کرسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ شریف خاندان پر بدعنوانی کے کئی ایک الزامات عائد کئے گئے ہیں اور مقدمات بھی زیردوران ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ مخالف بھٹو گروپ میں شریف خاندان کا نام ہمیشہ سے سرفہرست رہا ہے، لیکن عمران خان کے خلاف جس انداز میں نواز شریف، شہباز شریف ، مریم نواز اور ان کے خاندان نے مخالفت شروع کی، اس سے کہیں زیادہ بڑی خاموشی سے آصف علی زرداری نے اپنا کردار ادا کیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ نواز شریف بار بار یہ کہا کرتے تھے کہ 1992ء میں پاکستان کو کرکٹ ورلڈ کپ جتانے والے عمران خان بے داغ، باکردار اور غیرت مند انسان ہیں اور غیور انسان بس پاکستان مسلم لیگ میں داخل ہوا چاہتا ہے لیکن میاں نواز شریف کی یہ پیش قیاسی پوری نہ ہوسکی اور پھر غیرت مند انسان پاکستان کے بے غیرت سیاست دانوں کے خلاف سینہ سپر ہوگیا اور حقیقت میں کرکٹ کی طرح ملک کی سیاست میں بھی ایک کپتان ثابت ہوا۔ پاکستان کے حالیہ سیاسی بحران میں اسٹابلشمنٹ اور میڈیا کا بھی رول بہت ہی خطرناک رہا۔ میڈیا نے بکاؤ میڈیا کے طور پر کام کیا اور مسلسل عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تائید میں مہم چلائی۔ اس تناظر میں دیکھے جائے تو یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے ناپاک اتحاد کرتے ہوئے اپنے مفادات کی تکمیل کی جبکہ عمران خان کی پارٹی ’’پی ٹی آئی‘‘ کے منحرف ارکان نے جو غداری کی ، اسے عوام معاف نہیں کریں گے۔ سیاست دانوں کی اس مفاد پرستی نے عمران خان کو ذہنی طور پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منحرف ارکان پر تاحیات پابندی کیلئے وہ عدالت سے رجوع ہوئے ہیں۔ پاکستان میں اگرچہ میڈیا نے عمران خان کی تائید میں نکلے عوام کے خیالات کو چھپانے کی کوشش کی لیکن بی بی سی کے مطابق عمران خاں کے اقتدار کے خاتمے کے ذمہ داروں سے متعلق سوال پر عوام کا یہی کہنا تھا کہ عمران خاں کو ایک سازش کے تحت اقتدار سے بے دخل کیا گیا لیکن جلد ہی وہ اقتدار پر واپس ہوں گے۔ اگر دیکھا جائے تو جس وقت سال 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف (PTI) کی حکومت قائم ہوئی تب عمران خاں حکومت کو کئی چیلنجس کا سامنا کرنا پڑا، خاص کر معاشی محاذ پر عمران خان کو سب سے بڑا چیلنج کا سامنا رہا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے تین وزرائے فینانس تبدیل کئے۔ اب شہباز شریف کی حکومت کو بھی معاشی محاذ پر کئی ایک چیلنجس کا سامنا ہے۔ اقتدار ان کیلئے ’’کانٹوں کا تاج‘‘ ثابت ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپیہ کی قدر و قیمت میں بہتری آئے گی یا نہیں؟ پٹرول کی قیمتوں میں کمی آئے گی یا نہیں؟
بیرونی قرضوں کا حجم بھی شہباز شریف کیلئے مصیبتیں پیدا کرسکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شہباز شریف کی زیرقیادت اتحادی حکومت میں پٹرول، کھانے پینے کی اشیاء، بالخصوص شکر، آٹا، پیاز، ٹماٹر، ویجیٹیبل گھی، دودھ، مسور کی دال، چکن کی قیمتیں کیا ہوں گی، آیا ان میں کمی آئے گی؟ پاکستان میں فی الوقت شکر کی قیمت تقریباً 90 روپئے، آٹے کی قیمت 1172 روپئے 20 کلو، ایک کلو پیاز کی قیمت 62 روپئے، ٹماٹر کی قیمت فی کلو 154 روپئے، ڈھائی لیٹر گھی کی قیمت 1210 روپئے، مسور کی دال فی کلو 217، چکن برائلر فی کلو 267 روپئے ہے۔ آپ کو یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ یکم جنوری میں پاکستان کا بیرونی قرض 83.9 ارب ڈالرس ہوچکا ہے۔