پاکستان میں پروفیشنلز کو بھی معاشی تنگی کا سامنا

   

ملک کی 220 ملین آبادی میں اکثریت معاشی مشکلات میں مبتلا، عوام ضروریات زندگی کم کرنے پر مجبور

اسلام آباد: روپے کی گھٹتی قدر اور سبسڈیز ختم کرنے کے حکومتی اقدام کی وجہ سے کئی افراد کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس صورتحال میں تعلیم یافتہ ملازمت پیشہ طبقہ اپنی ضروریات اور اخراجات محدود کرنے پر مجبور ہے۔ نورین احسن ایک اسکول میں ایڈمنسٹریٹر ہیں لیکن اپنی ہی بیٹیوں کو تعلیم دلوانا اب ان کیلئے مشکل ہو گیا ہے۔ان کی ماہانہ آمدنی پاکستان کی اوسط ماہانہ تنخواہ سے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ فی الحال ان کے پاس اپنی بیٹیوں کو اسکول کے بجائے گھر پر پڑھانے اور لندن بورڈ کے تحت ہونے والے امتحانات میں ان کی رجسٹریشن ملتوی کرانے کے سوا کوئی چارہ نہیں کیونکہ یہ اخراجات ان کی استطاعت سے باہر ہیں۔نورین اور ان کے شوہر، جن کا گاڑیوں کی سروسنگ کا کاروبار ہے، مل کر گھر چلاتے ہیں۔ لیکن روپے کی قدر میں کمی اور بڑھتے اخراجات کے باعث ان کیلئے اب یہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔اور یہ صرف نورین کے ہی گھر کی کہانی نہیں ہے۔ روپے کی گھٹتی قدر اور عالمی مالیاتی فنڈ کے ایک بیل آؤٹ پیاکیج کے حصول کیلئے سبسڈیز ختم کرنے کے حکومتی اقدام کی وجہ سے پاکستان کی 220 ملین کی آبادی میں سے اکثریت کو اب معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔حالانکہ اقتصادی بحران پاکستان کیلئے کوئی نئی بات نہیں۔ سن 1997 کے بعد سے عالمی مالیاتی فنڈ کا یہ پانچواں بیل آؤٹ پیاکیج ہے جس کیلئے پاکستان کی حکومت کوشاں ہے۔لیکن ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اس مقصد کیلئے ٹیکسوں اور ایندھن کی قیمتوں میں کیے گئے اضافے اور دیگر اقدامات سے تعلیم یافتہ ملازمت پیشہ طبقہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کا کہنا ہے کہ اخراجات پورے کرنے کیلئے اب انہیں اپنی ضروریات کم کرنی پڑ رہیں ہیں۔ نورین نے اس حوالے سے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ہم اب باہر کھانا نہیں کھاتے۔ اور اب ہم گوشت یا مچھلی بھی نہیں خریدتے۔ میں نے ٹشو پیپر اور ڈٹرجنٹ کا استعمال بھی کم کر دیا ہے۔ ہم نے دوستوں نے ملنا اور تحفے تحائف دینا بھی بند کر دیا ہے۔ البتہ اب ہم کبھی کبھی ایک دوسرے پر چلاتے ہیں۔پاکستان میں حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم اجرت تقریباً 25 ہزار روپے ماہانہ ہے۔ لیکن مہنگائی میں ہوشربا اضافے کے بعد سے اس سے کہیں زیادہ کمانے والے کئی افراد کا کہنا ہے کہ ان کی تنخواہ اب مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے۔گزشتہ ماہ فروری میں ہی پاکستان میں مہنگائی کی شرح 31.5 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی، جو کہ ملک میں پچاس سال کے عرصے میں مہنگائی کی بلند ترین سطح تھی۔پاکستان میں پیشگی تنخواہ لینے کی سہولت فراہم کرنے والی فن ٹیک کمپنی ابھی سیلری کے مطابق پچھلے تین مہینے سے اس سے لی جانے والی پیشگی تنخواہوں میں ہر ماہ بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عمیر انصاری کہتے ہیں کہ پیشگی تنخواہ لینے والے افراد میں سے اکثر اس کا دو تہائی حصہ گھر کا سودا سلف خرید کر اس کو ذخیرہ کرنے پر خرچ کرتے ہیں، یہ سوچ کر کہ ان اشیاء کی قیمتوں میں نہ جانے کب مزید اضافہ ہو جائے۔ اقتصادی تھنک ٹینک سسٹین ایبل پالیسی ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ آف پاکستان سے وابستہ عابد سلیری کا کہنا ہے، بد قسمتی سے پاکستان میں غریب کیلئے تو کھونے کو کچھ بچا ہی نہیں ہے۔
ملک میں بڑھتی معاشی بدحالی کی منظر کشی کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ دوسری جانب تعلیم یافتہ افراد کی قوت خرید اور جمع پونجی ختم ہو رہی ہے اور ان کیلئے روزانہ کے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔