دہشت گردی سے نمٹنے اور افغانستان میں قیام امن کی حمایت کرنے پر زور دیا جاسکتا ہے ۔ سابق پاکستانی سفیر کی رائے
واشنگٹن ۔ امریکہ میں جو بائیڈن انتظامیہ امکان ہے کہ پاکستان سے نمٹنے میں حقیقت پسندانہ موقف اختیار کریگا اور اسلام آباد پر اس بات کیئلے زور دیا جائیگا کہ دہشت گردی اور اس سے متعلق امور پر کارروائی کی جائے اور افغانستان میں قیام امن کیلئے امریکی کوششوں کی حمایت کی جائے ۔ ایک سابق پاکستانی سفارتکار نے یہ رائے ظاہر کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے تحت حکمت عملی مذاکرات کا احیاء بھی عمل میں آئے تاہم یہ تعلقات اس سطح کے نہیں ہوسکتے جو بارک اوباما کے انتظامیہ میں رہے ہیں۔ پاکستان کے سابق سفیر برائے امریکہ حسین حقانی نے یہ رائے ظاہر کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ پاکستان سے نمٹنے میں حقیقت پسندانہ موقف اختیار کرے وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت جاری رکھ سکتا ہے اور اسلام آباد پر اس بات کیلئے زور دیا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی سے متعلق امور پر کارروائی کی جائے ۔ اس کے علاوہ معاشی امور سے متعلق ٹاسک فورس میں اپنا ریکارڈ بہتر بنایا جائے اور افغانستان میں امن قائم کرنے میں امریکہ کی کوششوں کی حمایت بھی کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ جو بائیڈن کا انتظامیہ پاکستان کو سکیورٹی امداد کی رقم کی اجرائی بحال کردے ۔ اتحادی امدادی فنڈز در اصل صدارتی طرز پر منظور کئے جاتے ہیں اور اسے کانگریس کی منظوری حاصل ہوتی ہے ۔ یہ فنڈز دہشت گردی سے نمٹنے والے حلیف ممالک میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔ پاکستان کو یہ فنڈز امریکہ سے ملتے رہے ہیں تاہم 2018 میں امریکہ نے یہ امداد بند کردی تھی کیونکہ اس کے خیال میں پاکستان نے دہشت گرد گروپس پر اثرانداز ہونے کی کارروائی روک دی تھی ۔ امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے 2018 میں اپنے اولین دورہ پاکستان کے موقع پر امید ظاہر کی تھی کہ وہاں عمران خان کی قیادت والی پاکستانی حکومت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی سمت پیشرفت ہوسکتی ہے تاہم ایسا نہیں ہوا کیونکہ پاکستان کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات بن گئے ہیں۔ پاکستانی سفارتکار حسین حقانی کا کہنا ہے کہ امریکہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں پاکستان کی تائید حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ پاکستان ‘ دہشت گرد گروپس کے خلاف کارروائی کرے ۔ پاکستان اگر ایسا کرنے تیار ہوجاتا ہے تو پھر امریکہ اور پاکستان کے مابین تعلقات میں بہتری آسکتی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ منتخب صدر جو بائیڈن اور ان کے مشیر ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ ایسے میں وہ افغانستان سے امریکی افواج کی دستبرداری کے عمل کو طوالت دے سکتے ہیں۔ اس کو طالبان تشدد کے خاتمہ سے مشروط بھی کیا جاسکتا ہے ۔ طالبان اور پاکستان پر امن معاہدہ کیلئے دباو میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ٹرمپ انتظامیہ کے تحت امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء کا عمل شروع کیا تھا ۔