ترکیہ اور قطر کی ثالثی کوئی کام نہ آئی، بات چیت پاکستان کی وجہ سے ناکام رہی: ذبیح اللہ مجاہد
استنبول ۔ 8 نومبر (ایجنسیز) پاکستان اور افغانستان کے مابین پائی جانے والی سرحدی کشیدگی کے خاتمہ کے لیے استنبول میں منعقدہ امن مذاکرات کا تیسرا دور بھی ناکام رہا، جس کے بے نتیجہ رہنے کے لیے دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین پائی جانے والی سرحدی کشیدگی کے خاتمے کے لیے استنبول میں ہونے والا امن مذاکرات کا تیسرا دور بھی ناکام رہا، جس کے بے نتیجہ رہنے کے لیے دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے 8 نومبر کے روز ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ترکیہ کے شہر استنبول میں اس امن بات چیت کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے درمیان گزشتہ جنگی جھڑپوں کے بعد طے پانے والے فائر بندی معاہدہ کو دیرپا شکل دینا تھا۔ تاہم اس سلسلے میں قطر اور ترکی جیسے ثالث ممالک کی کوششوں کے باوجود تیسرا مذاکراتی دور بھی ناکام رہا، جس کے لیے فریقین نے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین تازہ ترین کشیدگی نو اکتوبر کو کابل میں ہونے والے دھماکوں کے ساتھ شروع ہوئی تھی، جن کے بعد اسلام آباد اور کابل کے مسلح دستوں کے مابین مشترکہ سرحد پر اور اس کے قریبی علاقوں میں وہ جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں، جن میں درجنوں فوجی اور عام شہری مارے گئے تھے۔ ان مسلح جھڑپوں کے بعد خلیجی عرب ریاست قطر کی ثالثی میں اسلام آباد اور کابل کے مابین 19 اکتوبر کو ایک عبوری فائر بندی معاہدہ طے پایا تھا، جس پر ابھی تک کافی حد تک عمل درآمد جا ری ہے۔ استنبول میں ہونے والے دو روزہ مذاکراتی دور کی ناکامی کے بعد کابل میں افغان طالبان کی حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ بات چیت پاکستان کی وجہ سے بے نتیجہ رہی، ’’پاکستانی وفد کا غیر ذمہ دارانہ اور عدم تعاون پر مبنی رویہ اس امر کی وجہ بنا کہ اس بات چیت میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی، حالانکہ افغانستان کی نیت بھی اچھی تھی اور ثالثین کی کوششیں بھی بھرپور تھیں۔‘‘