بٹیں گے تو کٹیں گے… یوگی کی نئی شر انگیزی
مودی مردم شماری سے خوفزدہ … مہاراشٹرا میں مسلمانوں کا امتحان
رشیدالدین
’’بٹیں گے تو کٹیں گے‘‘ ملک میں ان دنوں اس نعرہ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ چیف منسٹر اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ اپنی ہر تقریر میں ہندو سماج کو متحد رہنے کی تلقین کرتے ہوئے اس نعرہ کو دہرا رہے ہیں۔ ساتھ میں ’’ایک رہیں گے تو نیک رہیں گے‘‘ کی تلقین کی جارہی ہے ۔ یوگی ادتیہ ناتھ ملک میں ہندوتوا کے چہرہ کے طور پر ابھرنا چاہتے ہیں تاکہ نریندر مودی کے متبادل کا مقام حاصل کرسکیں۔ آر ایس ایس کو مودی سے مایوسی ہوئی ہے اور حالیہ لوک سبھا چناؤ میں اکثریت سے محرومی کیلئے انہیں ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے ۔ نریندر مودی نے عمر کے 75 ویں سال میں قدم رکھ دیا ہے اور سنگھ پریوار میں 75 سال سیاسی طور پر وظیفہ کی عمر ہے۔ یوں تو بی جے پی میں کئی سینئر قائدین موجود ہیں لیکن آر ایس ایس کو گجرات کے نریندر مودی کی خصوصیات رکھنے والا چاہئے ۔ 2014 اور 2019 میں مودی کا ہندوتوا چہرہ بی جے پی کے اقتدار تک پہنچنے کا ذریعہ بنا تھا ۔ 10 سالہ حکمرانی کے بعد مودی میجک کمزور پڑنے لگا اور لوک سبھا نتائج کے بعد آر ایس ایس کو شدت سے یہ احساس ہو چلا ہے کہ نریندر مودی کی ہندوتوا شناخت باقی نہیں رہی۔ اب کی بار اکثریت سے محروم ہوئے اور اگر مودی پر انحصار کیا گیا تو 2029 میں اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ یوگی ادتیہ ناتھ سے ہٹ کر بی جے پی میں کوئی چہرہ بھی ایسا نہیں جسے مودی کا متبادل تصور کیا جاسکے۔ یوگی کو شائد یہ اندازہ ہوچکا ہے کہ قیادت میں تبدیلی کی صورت میں قرعہ فعال ان کے نام کا نکل سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوگی ہندو سماج کو متحد کرنے کی مہم میں مصروف ہوچکے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ نریندر مودی سے کرسی چھیننا اس قدر آسان نہیں اور تبدیلی کی کوئی بھی کوشش پارٹی میں پھوٹ پیدا کردے گی ۔ یوگی ادتیہ ناتھ کٹر پسند قائدین کے لئے قابل قبول ہوسکتے ہیں لیکن بی جے پی قائدین کی اکثریت کی رائے ان کے حق میں نہیں ہے۔ اندازہ کیجئے کہ ایک یوگی گیروے لباس میں دنیا بھر میں ہندوستان کی نمائندگی کرے گا۔ نریندر مودی ہر رنگ میں رنگ جاتے ہیں اور ’’سوٹ بوٹ میں آیا کنہیا‘‘ کے مصداق وہ عالمی قائدین کا سامنا کرنے کی مہارت حاصل کرچکے ہیں۔ اترپردیش اور ملک کی قیادت میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ یوگی کے لئے بھلے ہی دلی دور سہی لیکن کوشش کرنے میں کیا برائی ہے۔ مودی اور یوگی میں کئی معاملات میں یکسانیت ہے۔ دونوں کے دامن مسلمانوں اور مظلوموں کے خون سے داغدار ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں دونوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔ مودی اور یوگی دونوں تنہا اور گھر والی کے بغیر ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مودی نے اگنی کو ساکشی مان کر جنم جنم کا ساتھ نبھانے پھیرے لئے تھے لیکن گھر والی کے ساتھ وفا نہیں کیا جبکہ یوگی شروع ہی سے پریوار کو چھوڑ کر سنگھ پریوار کے لئے وقف ہوگئے ۔ ہاں تو بات ’’بٹیں گے تو کٹیں گے‘‘ نعرہ کی چل رہی تھی جو ہندو سماج میں ایک تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ گودی میڈیا کے چاٹو کار اینکرس ہندوؤں کو اس نعرہ کی آڑ میں متحد ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ سنگھ پریوار نظریات کے تائیدی دانشوروں نے بھی یوگی کے نعرہ کی تائید کی ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کی مثال پیش کی جارہی ہے ، جہاں اقلیتوں پر مظالم کے واقعات پیش آئے۔ متحد ہونے کا نعرہ ہمیشہ اقلیت یعنی کم آبادی والے گروپ کی جانب سے لگایا جاتا ہے ۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت میں ہیں ، لہذا ان کا اتحاد کا نعرہ واجبی دکھائی دیتا ہے۔ ہندوستان میں 85 فیصد آبادی اگر محض 15 تا 20 فیصد سے خوفزدہ ہے تو اسے مذاق نہیں تو کیا سمجھا جائے۔ یوگی ادتیہ ناتھ آخر کس اتحاد کی بات کر رہے ہیں؟ بٹے ہوئے تو ہندوستان میں مسلمان ہیں۔ مختلف عنوانات سے جو کٹ رہے ہیں، وہ بھی مسلمان ہی ہیں۔ باوجود اس کے آخر کس بٹنے اور کٹنے کا یوگی خوف دلا رہے ہیں۔ فسادات ہوں کہ ماب لنچنگ نشانہ تو مسلمان ہی بنتے ہیں۔ اگر مسلمان بٹے ہوئے نہ ہوتے تو بابری مسجد سے محروم نہ ہوتے۔ مسلمان بٹے ہوئے نہ ہوتے تو طلاق ثلاثہ پر امتناع کا قانون منظور نہ ہوتا۔ مسلمان بٹے نہ ہوتے تو عبادت گاہوں پر مندر ہونے کی دعویداری نہ کی جاتی۔ مسلمان بٹے نہ ہوتے تو وقف ترمیمی بل 2024 تیار نہ ہوتا۔ مسلمان بٹے نہ ہوتے تو یکساں سیول کوڈ ، این آر سی اور ہندو راشٹر کی دھمکیاں نہ دی جاتیں۔ مسلمان آخر متحد کہاں ہیں جو یوگی ادتیہ ناتھ کو ہندوؤں کے لئے خطرہ دکھائی دے رہے ہیں۔ مسلمان سب کچھ لٹ جانے کے باوجود ہوش کے ناخن لینے تیار نہیں ہیں۔ مسلمان متحد ہوتے تو پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں فیصلہ کن طاقت بن کر ابھرتے۔ مسلمان متحد ہوتے تو بی جے پی کو 10 سال تک اور پھر تیسری مرتبہ اقتدار کا ہرگز موقع نہ ملتا۔ حالیہ لوک سبھا چناؤ میں سیکولر پارٹیوں بالخصوص کانگریس کے مظاہرہ میں بہتری سے بی جے پی اس قدر خوفزدہ ہیں کہ ہندوؤں کو متحد ہونے کی تلقین کی جارہی ہے ۔ بٹیں گے تو کٹیں گے نعرہ کے ذریعہ یوگی مسلمانوں کو دھمکی دے رہے ہیں کہ متحد ہونے کی حماقت اور غلطی نہ کریں۔ اس نعرہ سے مسلمانوں کے بارے میں نفرت کے جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہندو سماج متحد ہوجائے تو نقصان تو اقلیت کا ہی ہوگا۔ ہندو سماج متحد ہے اسی لئے بی جے پی کو مسلسل تیسری بار اقتدار حاصل ہوا اور ملک کی کئی ریاستوں پر اس کی حکمرنی ہے۔ مسلمانوں کے پاس باقی بچا کیا ہے، جن پر ہندو توا طاقتوں کی نظر ہے۔ تعلیمی ادارے چھین لئے گئے۔ موروثی جائیدادیں اور اراضیات پر حق ختم کردیا گیا۔ لینڈ سیلنگ قانون کے نام پر نوابوں کو بے زمین کردیا گیا۔ تعلیم ، ملازمت ، صنعت و حرفت ہر شعبہ میں دلتوں سے زیادہ مسلمان پسماندہ ہیں ، پھر بھی نفرت کے سوداگروں کی مسلمانوں پر نظریں اس گدھ کی طرح ہیں جو مردار کی تلاش میں ہوتا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی ملک میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کے نعرہ سے پریشان ہیں۔ مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ میں انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی نے او بی سی ، ایس سی اور ایس ٹی طبقات کو متحد رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کانگریس برسر اقتدار آنے پر تحفظات سے محرومی کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ دراصل کمزور طبقات کو متحد کرنا بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کا حصہ ہے۔ راہول گاندھی نے ذات پات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کرتے ہوئے ایس سی ، ایس ٹی اور او بی سی طبقات کو باشعور بنادیا ہے ۔ ملک میں پسماندہ اور کمزور طبقات کی حقیقی آبادی کو چھپاکر اعلیٰ طبقات ان کے جائز حق سے ناانصافی کر رہے ہیں۔ اگر مردم شماری ہوجائے تو ہر ایک کی حقیقی آبادی کا پتہ چلے گا اور تحفظات کے موجودہ فیصد کو بدلنا پڑے گا۔ بی جے پی ، سنگھ پریوار اور خاص طور پر آر ایس ایس میں اعلیٰ طبقات کا غلبہ ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دلتوں کے ساتھ امتیازی سلوک آر ایس ایس میں دیکھنے کو ملے گا ۔ نریندر مودی ملک کے صدر جمہوریہ کے عہدہ پر رام ناتھ کووند اور دروپدی مرمو کو فائز کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے دلت اور قبائل سے ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ملک کے صدر جمہوریہ کے عہدہ پر کسی دلت کو فائز کرنے سے ملک میں دلتوں کو انصاف نہیں مل سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ راہول گاندھی نے حقیقی آبادی کا پتہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی بھی ہندوؤں کو متحد کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف مہاراشٹرا کے اسمبلی انتخابات بی جے پی کیلئے ایسڈ ٹسٹ کی طرح ہیں۔ جھارکھنڈ میں بی جے پی کو کامیابی کی زیادہ امید نہیں ہے جبکہ مہاراشٹرا میں اپوزیشن کے ووٹ منقسم کرتے ہوئے تشکیل حکومت کا خواب دیکھا جارہا ہے ۔ شیوسینا اور این سی پی میں پھوٹ کے سبب روایتی ووٹ تقسیم ہونے کا اندیشہ برقرار ہے۔ راہول گاندھی ، شرد پوار اور اودھو ٹھاکرے اتحاد کو حالیہ لوک سبھا چناؤ میں 31 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی جو اس بات کا اشارہ تھا کہ اسمبلی انتخابات میں یہی اتحاد برسر اقتدار آئے گا۔ مسلمانوں اور دلتوں نے بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کو مسترد کردیا تھا۔ مہاراشٹرا الیکشن میں مسلم اقلیت کے ووٹ فیصلہ کن موقف رکھتے ہیں اور اگر مسلمان متحدہ طورپر سیکولر پارٹیوں کے حق میں ووٹ کا استعمال کریں تو مہاراشٹرا میں سیکولر پارٹیوں کا برسر اقتدار آنا یقینی رہے گا۔ سیکولر ووٹ تقسیم کرنے کیلئے طرح طرح کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ مسلم امیدواروں کے خلاف مسلمانوں کو میدان میں اتار کر بی جے پی کی کامیابی کی سازش کی گئی ہے۔ مہاراشٹرا کے مسلمانوں نے لوک سبھا چناؤ میں سیاسی شعور کا جو مظاہرہ کیا تھا ، اسی مظاہرہ کو اسمبلی چناؤ میں دہرانے کی ضرورت ہے۔ جہاں ایک سے زائد مسلم امیدوار ہیں، وہاں کامیابی کی طاقت رکھنے والے امیدوار کی تائید کرتے ہوئے بی جے پی کی سازش کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کو اپنے نئے ہمدردوں کے بجائے آزمودہ سیکولر پارٹیوں کے حق میں فیصلہ کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر راحت اندوری کا یہ شعر حالات پر صادق آتا ہے ؎
پتیاں روز گرا جاتی ہے زہریلی ہوا
اور ہمیں پیڑ لگانے کو کہا جاتا ہے