پی چدمبرم
پراجکٹ ہندو راشٹر تیزی پکڑ رہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اس کے انجن، وزیر داخلہ امیت شاہ اس کے ڈرائیور اور آر ایس ایس ایس اس کی ڈیزائنر؍ انجینئر ہے جو بڑی دلچسپی سے اس پراجکٹ کو دیکھ رہی ہے یا اس کی نگرانی کررہی ہے۔
مسلمانوں کیلئے دو ٹوک پیغام:
صرف ایک بات جو سب سے زیادہ حیران کن ہے وہ یہ ہے کہ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں اپنی واضخ اور بڑی کامیابی کے بعد بی جے پی اپنے ایجنڈہ کو بڑی تیزی سے آگے بڑھا رہی ہے۔ چنانچہ طلاق ثلاثہ کو جرم قرار دینا، آسام میں این آر سی (نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزنس) پر عمل آوری، کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والی دستور کی دفعہ 370 کی منسوخی اور اب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں شہریت ترمیمی بل کی منظوری دراصل پراجکٹ ہندو راشٹر کو آگے بڑھانے سے متعلق وسیع تر منصوبہ کا حصہ ہیں۔ان اقدامات کے پیچھے کارفرما عام مقصد و نیت کا جہاں تک سوال ہے وہ دراصل ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ دو ٹوک اور غیر مبہم پیام دینا ہے کہ وہ (ہندوستانی مسلمان) اس ملک کے مساوی شہری نہیں ہیں ساتھ ہی گوالکر، ساورکر کے اس نظریہ کا اعادہ بھی کرنا ہے جس میں دونوں نے کہا تھا کہ ہندوستان ایک ہندو ملک ہے
جہاں تک قانون شہریت 1955 کا معاملہ ہے وہ پیدائش موروشیت، اندراج، عمل شہریت (شہریت دینے کے عمل) اور علاقہ کی شمولیت سے یا ان کی بنیاد پر شہریت کو تسلیم کرنا ہے۔ ان کے سواء ہندوستان میں رہنے والے دیگر لوگ غیر قانونی تارکین وطن ہوں گے۔ قانون بیرونی شہری 1946 اور قانون پاسپورٹ (ہندوستان میں داخل ہونے سے متعلق قانون) 1920 کا ان پر اطلاق ہوگا اور وہ قابل اخراج یا ملک سے نکالے جاسکتے ہیں۔ ویسے بھی شہریت سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہے کسی بھی فرد کے مذہب کا آیا وہ شہری ہو یا غیر قانونی تارک وطن ہندوستانی شہریت سے متعلق تصور یا نظریہ سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن شہریت ترممی بل 2019 کی منظوری کے ساتھ ہی تمام مذکورہ نکات تبدیل ہوچکے ہیں، یہ بل ایک مشتبہ بل ہے اور حقیقت یہ ہے کہ کئی اسکالرس اور سابق ججس کے خیال میں یہ غیر دستوری ہے۔
متعدد سوالات جن کے جوابات نہیں:
بل کا مقصد اور اس کا کام کیا ہے؟ اس بل میں تین ملکوں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان اور چھ مذاہب کے ماننے والوں بشمول ہندووں، سکھوں، بدھسٹوں ۔ جینوں، پارسیوں اور عیسائیوں کو شامل کیا گیا ہے۔ شہریت ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ تینوں ملکوں سے سطور بالا میں جن مذاہب کے نام دیئے گئے ہیں ان کے ماننے والے مرد یا خواتین وہاں ظلم و جبر یا ستائے جانے کے باعث 31 دسمبر 2014 یا اس سے قبل ہندوستان میں داخل ہوئے ہیں تو انہیں ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعہ بیرونی شہریوں سے متعلق قانون اور قانون پاسپورٹ (ہندوستان میں داخل ہونے سے متعلق قانون) کی دفعات سے استثنیٰ دیا جاسکے گا اور یہ افراد غیر قانونی تارکین وطن نہیں ہوں گے۔ مختصراً یہ کہ شہریت ترمیمی بل 2019 نے ہندوستانی شہریت حاصل کرنے ایک نئی راہ متعارف کروائی ہے اور وہ ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعہ شہریت کا دینا ہے۔ اس سلسلہ میں کئی سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ سوالات حکومت سے کئے گئے لیکن حکومت کے پاس ان سوالات کے جواب نہیں ہیں۔ ان سوالات میں حسب ذیل سوالات بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
(1 شہریت ترمیمی بل 2019 میں صرف تین ملکوں کو کیوں شامل کیا گیا اور ان کے ساتھ خصوصی سلوک کرنے کا اعلان کیا گیا جبکہ سری لنکا، مائنمار، بھوٹان اور نیپال جیسے ملکوں کو چھوڑ دیا گیا۔
(2 بل میں صرف 6 اقلیتی کمیونٹیز کو خصوصی سلوک کے لئے کیوں شامل کیا گیا اور ان دیگر کمیونٹیز کو شامل نہیں کیا گیا جنہیں ان کے اپنے ملکوں میں ظلم و جبر اور امتیازی سلوک کا صرف اس لئے سامنا ہے کیونکہ وہ اکثریت سے تعلق نہیں رکھتے اس طرح کے کمیونٹیز میں احمدیہ، ہزارہ، بلوچی، روہنگیا، یہودی وغیرہ شامل ہیں۔
(3 مذاہب ابراہیمی تین ہیں پھر کیوں اس بل میں یہودیت اور اسلام کو چھوڑ کر عیسائیت کو شامل کیا گیا۔
(4 کیوں ہندوں کو شامل کیا گیا اور سری لنکا کے ہندووں کو شامل نہیں کیا گیا؟ کیوں عیسائیوں کو بل میں شامل رکھا گیا لیکن بھوٹانی عیسائیوں کو شامل نہیں کیا گیا ؟
(5 شہریت ترمیمی بل کی بنیاد مذہبی ظلم و وستم ہے۔ ان لوگوں کا کیا ہوگا جو ظلم و ستم کی دوسری اشکال جیسے لسانی سیاسی، تہذیبی اور ذات پات وغیرہ کا شکار ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے جو خانہ جنگی کے متاثرین ہیں۔
(6 شہریت دینے کے لئے آخر کیوں 31 دسمبر 2014 تک کی تاریخ کا تعین کیا گیا۔ 25 مارچ 1971 تک کی تاریخ کے تعین کا اثر کیا ہے جس کا آسام معاہدہ میں حوالہ دیاگیا۔ آیا اس تاریخ کو مسترد کردیاگیا؟
(7 آسام، میگھالیہ، میزورام یا تریپورہ کے قبائیلی علاقوں کو شہریت ترمیمی بل کی دفعات سے استثنیٰ دینے کا مقصد کیا ہے؟ حالانکہ ان علاقوں کو دستور کے چھٹویں شیڈول میں شامل کیا گیا ہے اور بنگال، ایسٹرن فرنٹیر ریگولیشن 1973 کے تحت اس علاقہ کی خطِ اندرون کی حیثیت سے نشاندہی کی گئی ہے۔ اس قسم کے استثنیٰ کے عواقب و نتائج اور اثرات کیا ہیں؟
(8 کیا شہریت ترمیمی بل (CAB) اور این آر سی دو جڑواں بچے نہیں ہیں؟ کس پر پہلے عمل آوری کی جائے گی CAB پر یا NRC پر؟
(9 آیا ایسے لوگ جنہوں نے دعویٰ کیا ہیکہ وہ 25 مارچ 1971 سے قبل ہندوستان میں پیدا ہوئے یا ہندوستان میں داخل ہوئے انہیں اب اپنی کہانی تبدیل نہیں کرنی پڑے گی؟ یہ وہ لوگ ہیں جو یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنے آبائی ملک میں ظلم و ستم اور امتیاز سے متاثر ہوئے ہیں ان حالات میں ان کا کونسا دعویٰ جھوٹ پر اور کونسا دعویٰ سچائی پر مبنی ہوگا؟
شہریت ترمیمی بل میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے کے امکانی اثرات و نتائج:
اگر ملک میں شہریت ترمیمی بل CAB اور این آر سی دونوں پر عمل آوری کی جائے گی اور این آر سی میں جن غیر مسلموں کے نام حذف کئے گئے ان کے نام CAB کے تحت شامل کئے جائیں گے۔ اس کا ایک ہی نتیجہ یہ نکلے گا کہ صرف مسلمانوں کی غیر قانونی تارکین وطن کی حیثیت سے نشاندہی ہوگی اور ان کے نام خارج کردیئے جائیں گے جس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ ایک مرتبہ نام شامل نہیں ہوا تو پھر حکومت ایسے لوگوں کو اس وقت تک حراستی مراکز میں مقید رکھے گی جب تک کوئی ملک یا ممالک انہیں قبول کرنے پر راضی ہوں۔ یہ سوال بھی پیدا ہو رہا ہے کہ یہ حراستی مراکز کہاں تعمیر کئے جائیں گے اور کتنے مراکز کی ضرورت پڑے گی؟ آیا غیر قانونی باشندے قرار دیئے گئے لوگوں کو زندگی بھر کے لئے مراکز حراست میں رکھا جائے گا؟ اور ان کے بچوں کا موقف یا درجہ کیا ہوگا؟ اس کے علاوہ اس عمل کے ہندوستان اور بیرون ملک سماجی، اقتصادی اور سیاسی اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ لاکھوں مسلمانوں کو عملاً حراستی مراکز میں ڈالنے کا مطلب ہندوستان میں ان کی نسلی تطہیر ہوگی جس سے سری لنکا، مائمار اور پاکستان میں رہنے والے ہندووں پر ہندوستان منتقل ہونے کیلئے دباؤ بڑھ جائے گا۔
ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے CAB کے دستوری جواز پر زیادہ غور نہیں کیا ہے اور یہ نہیں دیکھا کہ دستور کی دفعہ 14 اور 21 پر یہ کیسے پورے اترتا ہے۔ ساتھ ہی حکومت نے یہ بھی غور کرنے کی زحمت نہیں کی کہ کیا یہ بل حقوق انسانی کی عالمی قرارداد کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ دوسری طرف شہریت ترمیمی بل کے خلاف آسام اور شمال مشرقی ریاستوں میں پرتشدد احتجاجی مظاہرے کئے جارہے ہیں اور ملک بھر میں عوام کی کثیر تعداد جن میں اکثریت ہندووں کی ہے احتجاجی مظاہروں میں شامل ہوئی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ شہریت ترمیمی بل کے بارے میں سنگین سوالات اور اس پر پھوٹ پڑے تشدد بلکہ برپا ہوئے طوفان کے باوجود پارلیمنٹ میں یہ عاملہ کے تعاون سے غیر دستوری بل منظور کرلیا گیا۔ ایسے میں مساوات اور دستوری اخلاقیات بحال کرنے کی ذمہ داری عدلیہ پر عائد ہوتی ہے۔
