حکومت سے قرض کی فراہمی میںکوتاہی ، فینانسروں کا جنگل راج ، حکومت خواب غفلت میں
حیدرآباد۔25فروری(سیاست نیوز) پرانے شہر کے مکینوں کو بینکوں کی جانب سے قرضہ جات کی فراہمی میں کی جانے والی کوتاہی اور دانستہ طور پر ان کی درخواستوں کو مسترد کئے جانے کے سبب پرانے شہر میں خانگی فینانسرس کو من مانی کا موقع میسر آرہا ہے اور اگر شہر کے اس خطہ میں بینکوں کی جانب سے قرضوں کی فراہمی میں کئے جانے والے تساہل کو ختم کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں پرانے شہر میں خانگی فینانسروں کی سرگرمیوں پر بڑی حد تک روک لگایا جاسکتا ہے کیونکہ بینکوں کی جانب سے قرض فراہم نہ کئے جانے کے سبب پرانے شہرکے مکینوں کو ان سود خوروں سے رجوع ہونا پڑتا ہے جنہیں سیاسی سرپرستی حاصل ہونے کے علاوہ وہ بھاری سود پر قرض کی فراہمی کے لئے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔ شہر حیدرآباد کے اس علاقہ کو بینکوں نے غیر معلنہ طور پر بلیک لسٹ کیا ہوا ہے اور پن کوڈ دریافت کرنے کے بعد ہی قرض کے لئے دی جانے وای درخواست کو مسترد کردیا جاتا ہے ۔ پرانے شہر میں موجود بینکوں کی جانب سے بھی تجارت اور مکان کی خریدی کیلئے بینک کی جانب سے قرض کی عدم فراہمی کے سبب شہری ان سودخوروں کے چنگل میں پھنستے جا رہے ہیں اور کہا جار ہاہے کہ آئے دن پرانے شہر میں سود خوروں کی ہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہاہے لیکن محکمہ پولیس کی چشم پوشی اور سیاسی سرپرستی کے باعث ان کی یہ حرکات منظر عام پر نہیں آرہی ہیں بلکہ ظلم کے شکار افراد کسی سے شکایت کے موقف میں بھی نہیں ہیں۔ تجارت کیلئے بینک کے قرض کے لئے رجوع ہونے والے افراد کا کہناہے کہ بینک کی جانب سے کاروائی تکمیل کرنے کے فوری بعد یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ انہیں قرض کی منظوری نہیں دی جاسکتی اور اس کے لئے کوئی تحریری وجہ نہیں بتائی جاتی بلکہ یہ کہہ کر انکار کردیا جاتا ہے کہ ان کے پاس دستاویزات کی کمی ہے اور ایسے افراد تجارت کے آغاز کیلئے ان سود خواروں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں جو انہیں 20تا25 فیصد شرح سود پر قرض فراہم کرتے ہیں ۔شہر میں ایسے کئی فٹ پاتھ تاجرین اور آٹو ڈرائیورس موجود ہیں جو کہ برسوں سے حاصل کئے گئے قرض کا صرف سود ادا کر رہے ہیں اور ان کی اصل رقم کی ادائیگی اب بھی باقی ہی ہے ۔شہر حیدرآباد کی معاشی ترقی کیلئے پرانے شہر کی بھی مجموعی ترقی ناگزیر ہے اور پرانے شہر کی مجموعی ترقی کے بعد ہی حالات میں تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ نئے شہر میں بھی خانگی سود خوروں کی لعنت موجود ہے لیکن نئے شہر میں اس طرح بھاری سود وصول نہیں کیا جاتا بلکہ وہ مائیکرو فینانس کی بنیاد پر چلائے جانے والے کاروبار ہیں جو کہ غیر قانونی ہیں ۔ پرانے شہر میں چلائے جانے والے غیر قانونی سودی کاروبار پر روک لگانے کیلئے سب سے پہلے بینکوں کے ذمہ داروں کو قرض کی اجرائی کیلئے راضی کرنا ضروری ہے کیونکہ پرانے شہر میں عوام کا بھی بینکوں کی آمدنی اور ان کے کاروبار میں بہتری میں اہم کردار ہے لیکن اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے پرانے شہر کے بینک اپنے ہی علاقہ کے شہریوں کی قرض کی درخواستوں کو مسترد کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے بلکہ ان کی جانب سے مسترد کی جانے والی درخواستوں پر وجہ بھی نہیں تحریر کی جاتی ہیں کہ کس بنیاد پر یہ درخواست مسترد کی گئی ہے ۔ منتخبہ عوامی نمائندوں اور بااثر شہریوں کی جانب سے اگر بینکوں پر دباؤ ڈالا جائے تو ممکن ہے کہ شہر کے اس خطہ میں رہنے والے مکینوں کو درپیش قرض کے حصول کے مسائل کو دور کیا جاسکتا ہے اور انہیں خانگی سودخوروں کے چنگل سے آزاد کروایاجاسکتا ہے ۔ محکمہ پولیس کی جانب سے کبھی کبھی سود خواروں کے خلاف مہم کا آغاز کرتے ہوئے انہیں انتباہ جاری کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ان کی یہ سرگرمیاں جاری رہتی ہیں جس کی بنیادی وجہ غریب و مجبور شہریوں کی ضرورتیں ہیں جن کا استحصال کرتے ہوئے وہ اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔