’’پرندے کی فریاد‘‘

   

Ferty9 Clinic

آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا
لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوووں پر کلیوں کا مسکرانا
وہ پیاری پیاری صورت وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا
آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں
کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہیں وطن میں میں قید میں پڑا ہوں
آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں
میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں
اس قید کا الٰہی دکھڑا کسے سناوں
ڈر ہے یہیں قفس میں میں غم سے مر نہ جاوں
جب سے چمن چھٹا ہے یہ حال ہو گیا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے غم دل کو کھا رہا ہے
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھتے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے
آزاد مجھ کو کر دے او قید کرنے والے
میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے!