پرگیہ ٹھاکر کو جانا ہی ہوگا

   

Ferty9 Clinic

برکھا دت
بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہم عصر سیاست کے ذریعہ نیشنلزم کو اہم بنا دیا ہے۔ پارٹی نے جس کی جڑیں سخت مبالغہ آمیزی کو ایندھن فراہم کرتے ہوئے خود نیشنلزم کو نقصان پہنچایا ہے اور پارٹی کا خود ساحتہ قومی ہونے پر بھی انتخابی بنیاد پر اس کا کام ہورہا ہے۔ مَیں (مصنفہ) اکثر اپنے آزاد ذہن کے ہم وطن ساتھیوں سے ناراضگی کا اظہار کیا کرتی تھی۔ لاکھوں شہریوں کے جذبات کو سمجھنے میں اور ترقی پسندی میں بری طرح ناکام ہے اور آخر کیوں ہم اپنے قومی ترانہ، قومی پرچم، مرد و خواتین کے لباس اور قابل فخر ہندوستانی ہونے جیسے کئی نظریات کو رائٹ ونگ نے اپناکر دوسروں سے وطن پرست ہونے کا ثبوت مانگ رہی ہے۔
بی جے پی اور اس کے حمایتی نہ صرف قومیت پسندی کی خود ساختہ تشریح کرتے ہیں بلکہ وہ دوسروں کو احکامات دیتے ہیں اور ان کے گودی میڈیا کے ٹی وی نیوز چیانل کے ذریعہ اس سوشیل میڈیا کے ذریعہ اپنے نظریات کو پھیلاتے ہیں اور جو کوئی اس (رائٹ ونگ) کے خلاف جاتا ہے۔ وہ اس کا جینا محال کردیتے ہیں جو کہ فلمی پس منظر جیسا ہوتا ہے اور جیسے ہی کوئی ان سے ناراضگی ظاہر کرتا ہے، ان سے فوراً ’’پاکستان چلے جاؤ‘‘ کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی سے یہ ضرور سوال کرنا چاہئے کہ پرگیہ ٹھاکر کو کس بنیاد پر پارلیمانی انتخابات میں ٹکٹ دیا گیا۔ پارٹی کے خود ساختہ معیارات برائے قومیت پسندی پر پرگیہ ٹھاکر ہر لحاظ سے ناکام ہے۔
جب پرگیہ نے پہلی بار مہاتما گاندھی کے (بہیمانہ) قتل کی ستائش کی اور 26 جولائی کو ہیرو ہیمنت کرکرے پر تہمت لگائی تو پارٹی نے تحقیقات کا وعدہ کیا تھا اور مناسب تادیبی کارروائی کرنے کا اشارہ دیا تھا۔ واضح رہے کہ مذکورہ وعدہ کوئی اور نہیں بلکہ وزیراعظم نے صحافیوں کے سامنے کہا تھا کہ وہ پرگیہ ٹھاکر کے کمنٹس کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ اس مسئلہ میں پھر کیوں پرگیہ کو برطرف نہیں کیا گیا یا کم از کم بی جے پی سے باہر نکال کیوں نہ پھینکا گیا۔ قبل اس کے کہ وہ لوک سبھا میں داخل ہوتی؟
اور اگر واقعتاً پارٹی میں اندرونی طور پر تحقیقات اور تادیبی کارروائی ہوئی ہوتی تو پھر پارلیمانی پیانل کے سامنے کیسے وہ اپنا دفاع کرتی جہاں سے وہ مہاتما گاندھی کے قاتل گوڈسے کی دوبارہ تعریف پر برخاست کردی گئی۔ بی جے پی کی جانب سے پرگیہ ٹھاکر کو ڈیفنس پیانل سے ڈراپ کیا جانا یا پھر اسے پارلیمانی میٹنگس میں صرف پارٹی میں خوبصورتی بڑھانے کے لئے ہیں۔ اگر پارٹی واقعی اس واقعہ کے ذریعہ اندرون پارٹی پیغام دینا چاہتی تو پارٹی اسے نکال باہر کرتی۔
بہرحال پارٹی اپنے کارکنان کے معاملات کو خود ساختہ معیارات پر کرتی ہے نہ کہ اپوزیشن کو جانچنے والے معیارات پر کرتی ہے اور اگر پرگیہ ٹھاکر قوم دشمن نہیں ہے، جیسا کہ رائٹ ونگ فلسفہ ہے تو میں (مصنفہ) نہیں جانتی کہ وہ کون ہے؟ بی جے پی کے حمایتیوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اس ہفتہ حلف لے چکے این سی پی وزیر چھگن بھوجبل نے ریکارڈ پر ایک مرتبہ کہا تھا کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی کے مجسمہ کے بجائے (گاندھی جی کے قاتل) گوڈسے کا مجسمہ ایستادہ کرنا چاہئے۔ موقع پرستی کے معاملے میں کوئی بھی بی جے پی سے آگے نہیں جاسکتا۔ کیا کوئی اس بات کو بھول سکتا ہے کہ پرگیہ ٹھاکر پر بم بلاسٹ معاملہ میں 6 افراد کے قتل کا الزام کا ہے جس میں 100 افراد زخمی ہوئے، ان میں 10 سالہ لڑکا ؍ لڑکی شامل ہے۔ ہم نے ابھی ممبئی دہشت گرد حملوں کے 11 سال مکمل کئے ہیں اور ان شہیدوں کو یاد بھی کیا ہے۔ پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر پرگیہ ٹھاکر کی گوڈسے کی ستائش اور بعدازاں اس سے انحراف کی کوشش ہماری شاندار جمہوریت پر تیر چلانے کے برابر ہے۔
اگر بی جے پی واقعی نیشنلزم میں یقین رکھتی ہے تو بی جے پی کو چاہئے کہ وہ پرگیہ ٹھاکر کو اپنی پارٹی سے نکال باہر کرے۔ ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ اس کے معیارات میں دوغلاپن ہے اور مصالحت آمیزی ہے۔ بی جے پی کی اصل خطا پرگیہ ٹھاکر کو پارلیمانی انتخابات کے لئے ٹکٹ دینا ہے۔ پارٹی یا تو اس سے دیا گیا ٹکٹ واپس لے یا پھر اپنی غلطی کا کفارہ ادا کرے۔