حیدرآباد۔31 ڈسمبر(سیاست نیوز) چیف منسٹر تلنگانہ مسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے مسلمانوں سے کئے گئے وعدوں پر عدم عمل آوری کا ریکارڈ بنتا جا رہاہے اور اس کے باوجود ہر گوشہ اور طبقہ میں خاموشی چھائی ہوئی ہے بلکہ حکومت کی جانب سے ان لوگوں کو استعمال کیا جا رہاہے جو قوم پر اثر رکھتے ہیں ۔ حکومت تلنگانہ نے این پی آر اور این آر سی کے معاملہ میں مسلمانوں کے نمائندہ وفد سے ملاقات اور ظہرانہ پر کہا تھا کہ وہ اندرون دو یا تین یوم این پی آر اور این آر سی کے متعلق ان کے فیصلہ سے عوام کو واقف کروائیں گے اور وفد کی جانب سے کی گئی ملاقات کے دوران یہ بھی کہا تھا کہ وہ 30 جنوری کو شہر حیدرآباد میں عظیم الشان کل جماعتی جلسہ عام منعقد کریں گے اور این آر سی اور این پی آر کے خلاف موقف رکھنے والے وزرائے اعلی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کو مدعو کریں گے لیکن 25 ڈسمبر کو ظہرانہ پر ہوئی اس ملاقات کے بعد سے حکومت کی جانب سے جو موقف اب تک سامنے آیا ہے اس کے مطابق چیف منسٹر نے اس ملاقات میں کئے گئے وعدو ں کو فراموش کردیا ہے کیونکہ سیاسی و مذہبی قائدین سے ملاقات کے دوران چیف منسٹر نے ریاستی وزیر ویمولہ پرشانت ریڈی کو نظام آباد میں 27 ڈسمبر کو منعقد ہونے والے جلسہ میں شرکت کی ہدایت دی تھی لیکن اس کے باوجود بھی مسٹر پرشانت ریڈی اس جلسہ میں شرکت نہیں کی ان کے اس موقف کے متعلق کہا جا رہاہے کہ ریاستی حکومت نے انٹلیجنس سے اطلاعات کے حصول کے بعد اپنے موقف کو تبدیل کردیا ہے۔ 27 ڈسمبر کو نظام آباد میں ہوئے جلسہ عام میں ریاستی وزیر کی عدم شرکت کے علاوہ ریاستی وزیر و کاگذار صدر تلنگانہ راشٹر سمیتی مسٹر کے ٹی راما راؤ اور دیگر قائدین کی جانب سے این پی آر اوراین آر سی مسئلہ پر جو بیان دیئے گئے ہیں ان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ریاستی حکومت نے این پی آر اور این آر سی کے نفاذ کا فیصلہ کرلیا ہے اور وہ ملاقات کے دوران کی گئی نمائندگی کو نظر انداز کرچکی ہے۔ چیف منسٹر تلنگانہ مسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے تشکیل تلنگانہ سے قبل مسلمانوں سے کئی وعدے کئے تھے جن میں 12 فیصد مسلم تحفظات‘ ریاستی وقف بورڈ کو وقف کمشنریٹ میں تبدیل کرنے کا اعلان‘ ریاستی حکومت کے بجٹ میں مسلمانوں کے لئے سب پلان وغیرہ شامل ہیں لیکن ان میں سے کسی بھی وعدہ کو پورانہیں کیا گیا بلکہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے اب تک کے دور میں تلنگانہ راشٹر سمیتی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیر قیادت مرکزی حکومت کے ہر اقدام میںاین ڈی اے کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی اس کے ساتھ کھڑی رہی۔ تلنگانہ راشٹرسمیتی نے سابق میں طلاق ثلاثہ مسئلہ پر مرکزی حکومت کی جانب سے کی جانے والی قانون سازی پر بی جے پی کا ساتھ دیا اور اسی طرح آر ٹی آئی ایکٹ میں کی گئی ترمیم میں بھی ٹی آر ایس نے مرکزی حکومت کا ساتھ دیا۔ یو اے پی اے قانون میں کی جانے والی ترمیم پر بھی تلنگانہ راشٹرسمیتی نے مرکزی حکومت کا ساتھ دیتی رہی ۔ صدر جمہوریہ کا انتخاب ہو یا نائب صدر جمہوریہ کے انتخاب کا مسئلہ ہو تلنگانہ راشٹر سمیتی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدواروں کا تائید کا فیصلہ کیا۔ اسی طرح مرکزی حکومت کی جانب سے جی ایس ٹی کے نفاذ کے سلسلہ میں اقدامات کو حکومت تلنگانہ کی مکمل تائید حاصل رہی اور کرنسی تنسیخ کے فیصلہ کی بھی حکومت تلنگانہ نے تائید کی ۔ تلنگانہ راشٹر سمیتی کی جانب سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے اتنے اہم فیصلوں پر کی جانے والی تائید کے باوجود قانون ترمیم شہریت کے سلسلہ میں مرکزی حکومت کے خلاف ووٹ دینے پر ریاست کے مسلمانوں نے سابق کی غلطیوں کو نظر انداز کردیا تھا لیکن اس قانون کی مخالفت کے بعد این پی آر کے نفاذ کے سلسلہ میں حکومت کی جانب سے اختیار کردہ خاموشی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے 3 گھنٹے سے زائد مسلمانوں کے نمائندہ وفد سے ملاقات کے دوران جو بات چیت کی گئی تھی اس کو بھی فراموش کردیا ہے ۔ چیف منسٹر نے اندرون دو تین یوم ماہرین سے مشاورت کے بعد فیصلہ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اندرون دو یوم چیف منسٹر کے فرزند نے واضح کردیا کہ اس طرح کا کوئی فیصلہ ریاستی کابینہ کرسکتی ہے اور اب جبکہ ریاست میں بلدی انتخابات کے سلسلہ میں انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہوچکا ہے تو اگر ریاستی کابینہ اجلاس کرتی بھی ہے تو اس سلسلہ میں باضابطہ اعلان نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح تلنگانہ راشٹرسمیتی کے سرکردہ رکن پارلیمنٹ و فلور لیڈر راجیہ سبھا نے واضح کردیا کہ این پی آراور این آر سی کے نفاذ کے معاملہ میں ریاستی حکومت اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہیں کرے گی کیونکہ قانون ترمیم شہریت کے سلسلہ میں پارٹی نے اپنا موقف واضح کردیا ہے۔ اس کے علاوہ ریاستی وزیر سیاحت سرینواس گوڑ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ حکومت کی جانب سے سی اے اے ‘ این پی آر اور این آرسی کے خلاف کسی کل جماعتی جلسہ عام کا منصوبہ نہیں ہے۔ 27 ڈسمبر کو ریاستی وزیر کی مسلم ایکشن کمیٹی کے جلسہ میں شرکت کے اعلان کے باوجود عدم شرکت نے مکمل حالات کو واضح کردیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی مسلمانان تلنگانہ کو خواب غفلت میں رکھنے کیلئے سرکردہ نام نہاد مسلم قائدین و عمائدین کوحکومت کی جانب سے استعمال کیا جانے لگا ہے اور ان کی جانب سے عوام میں اس بات کو عام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اگر این آر سی اور این پی آر کے کاموں کا آغاز ہوتاہے تو ایسے میں حکومت سے تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ تلنگانہ میں جب کبھی مسلمانوں کی تحریک نے شدت اختیار کی اس وقت حکومت نے مخصوص سیاسی و سماجی قائدین کی ٹولیوں کا بھر پور استعمال کیا ہے اورہر مرتبہ ان کی یہ کوشش کامیاب رہی لیکن اس مرتبہ مرکزی حکومت کی جانب سے شہریت ترمیم اور این پی آر کے علاوہ این آر سی کے معاملہ میں عوام نے تحریک کو اپنے ہاتھ لے لیا ہے اور وہ کسی بھی قیادت ‘ جماعت یا تنظیم کے بیانر کے منتظر نہیں ہیں اور اپنے طور پر احتجاج منظم کر رہے ہیں۔ چیف منسٹر کی مسلمانوں کے نمائندہ وفد سے ملاقات کے دوران ہی چیف منسٹر نے واضح کردیا تھا کہ انہوں نے خود پولیس کو کہا ہے کہ وہ کسی بھی طرح کے مخالف سی اے اے‘ این پی آر یا این آر سی احتجاج کی اجازت فراہم نہ کریں اور گذشتہ دنوں ریاستی وزیر مسٹر کے ٹی راما راؤ نے ٹوئیٹر پر شہریان تلنگانہ سے بات چیت کے دوران احتجاج کے سلسلہ میں کئے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ شہر حیدرآباد میں مجلس اور آر ایس ایس نے اجلاس منعقد کئے ہیں۔ ریاستی حکومت کی جانب سے اختیار کی جانے والی حکمت عملی کے متعلق کہا جارہا ہے کہ حکومت نے 22جنوری 2020 کو منعقد ہونے والے بلدی انتخابات تک اس مسئلہ پر کسی قسم کی رائے نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور بالواسطہ طور پر این پی آر کی تیاریوں کو جاری رکھنے کو ہری جھنڈی دکھائی جا چکی ہے۔