پروین کمال
ہجرت کے حوالے سے بات کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ہجرت کا یہ سلسلہ مغربی ممالک کیلئے بہت بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے کیونکہ مہاجرین کی روز افزوں بڑھتی ہوئی تعداد ملکی حالات پر بہت شدت سے اثرانداز ہورہی ہے، معیشتیں کمزور ہورہی ہیں، سیاسی حالات پر بھی اس کا اثر پڑرہا ہے۔ حکومتیں ابھی تک یہ سمجھ نہیں پا رہی ہیں کہ آخر ان پر کیسے قابو پایا جائے۔ جن راستوں پر ناکہ بندی کی جاتی ہے، کچھ دن بعد کوئی اور راستہ نکال لیا جاتا ہے۔ لمبے عرصے سے عمل جاری ہے۔ سمندری راستوں سے طوفانوں سے لڑتے ہوئے کسی طرح یہ مہاجرین منزل مقصود پر پہنچ ہی جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ چند اسمگلروں کی کارستانیاں ہیں جو انہیں بوسیدہ کشتیوں میں بھر کر لاتے اور کناروں پر چھوڑ جاتے ہیں۔ اس بات کو لے کر یورپی عوام مہاجرین کو واپس بھیجنے کیلئے پرزور احتجاج کررہے ہیں۔ ان ہوٹلوں کے باہر مظاہرے بھی کئے جارہے ہیں جہاں پناہ گزین کو ٹھہرایا گیا ہے۔ مظاہرے پرامن انداز میں کئے جارہے ہیں لیکن مطالبہ ہے کہ ملک میں مہاجرین کی موجودگی مزید برداشت نہیں کی جائے گی۔ ایک وہ وقت بھی تھا جب پناہ گزین کے آنے کی اطلاع ملنے پر مقامی باشندے ان کی مدد کرنے کیلئے قبل از وقت اسٹیشن پر پہنچ جاتے تھے۔ ان کے بچوں کیلئے بہترین غذائیں، مٹھائیاں، کپڑے، کھلونے اور بہت کچھ چند ایک جرمن خاندانوں نے تو انہیں اپنے گھروں میں بھی رکھ کر ہر طرح سے ان کی مدد کی جبکہ وہ ان کے لئے بالکل اجنبی تھے، لیکن اب انہیں لوگوں کو گوارا نہیں کیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوگی کہ ملکی خزانے پر بہت زیادہ بوجھ پڑ رہا ہے، کیونکہ تعداد اب لاکھوں تک پہنچ چکی ہے اور یہ بھی کہ ملکوں کا نظام درہم برہم ہورہا ہے۔ دراصل یورپی قوم ایک منظم اور اصول پرست قوم ہے۔ وہ قانونی دائرے سے ہٹ کر کام کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ ان کے اصولوں کی پابندی کرنا مہاجرین کے بس کی بات نہیں ہے۔ غرض ان دنوں ان کا رخ برطانیہ کی طرح ہے۔ اس سال تقریباً 50 ہزار مہاجرین غیرقانونی طور پر ملک میں داخل ہوچکے ہیں جو برطانیہ کی تاریخ میں ایک حیرت انگیز ریکارڈ کہا جارہا ہے۔ مہاجرین کے اس ہنگامی داخلے کی وجہ سے حکومت کی طرف سے سخت قوانین لاگو کئے جانے والے ہیں۔ اول تو سیاسی پناہ کیلئے داخل کی گئی درخواستوں پر غوروخوض کرکے وقت واحد میں واپس کرنے کا فیصلہ کردیا جائے گا اور اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ علاوہ اس کے غیرقانونی طور پر آنے والوں کو اسٹیشن پر ہی دو ایک روز رکھ کر وہیں سے ملک بدر کردیا جائے گا۔ بحرکیف! برطانیہ میں مہاجرین کی آمد ایک تنازعہ بن گئی ہے۔ اس وقت یوروپ کے تمام ملک پناہ گزین کی یلغار سے پریشان ہیں۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ انسان اپنے ملک چھوڑ کر دیارِ غیر میں کیوں پناہ لینا چاہتے ہیں۔ خانہ جنگیاں تو کئی ملکوں میں جاری ہیں، تاہم وہاں آباد سب ہی شہری گزار کررہے ہیں تو پھر یہ مہاجرین اپنا عرصہ حیات تنگ ہونے کی اطلاعات لے کر کیوں مغربی ملکوں میں گھس آتے ہیں۔ درحقیقت یہ افراد یورپ میں ملنے والی مراعات اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے سنہرے خواب پورے کرنے کی خواہش میں جان کی بازی لگا کر چلے آتے ہیں۔ جہاں حقیقت میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔ رہائش کیلئے تمام تر سہولتوں سے مزیں مکانات، ماہانہ وظیفہ، طبی سہولتیں، فری تعلیم اور بچوں کیلئے جیب خرچ بھی۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ جو اُنگلیوں پر گنایا نہیں جاسکتا۔ ایک چھوٹا سا سروے ہم نے کیا۔ ایک خوبصورت سی خاتون اسٹیشن پر بیٹھی نظر آئی۔ میں نے از راہ ہمدردی پوچھا: ’کس ملک سے آئی ہو، کیا چاہئے؟‘ اس نے جلدی سے کہا: “Asylum”۔ آگے کچھ کہہ نہ سکیں۔ کوئی اور زبان نہیں جانتی تھیں ، سوائے مادرن زبان کے۔ خوبصورت قیمتی لباس میں ملبوس گویا ایک ماڈل سی لگ رہی تھیں۔ اپنے ملک سے پریشان حالی میں بے یارومددگار نکلنے والے لوگ ایسے تو نہیں ہوسکتے۔ حکومتی اداروں کی طرف سے مقرر کی گئی ٹیمیں ان مسافرین کو دیکھ کر اچھی طرح اندازہ کررہی ہیں کہ یہ اشخاص چال بازی سے ہمارے ملکوں میں آرہے ہیں اور یہ کہ ان کے ساتھ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔ اسی بنیاد پر ان کی واپسی کے انتظامات کئے جارہے ہیں۔ یہ بات اب بغیر کسی شک و شبہ کے کہی جاسکتی ہے کہ یہ پناہ گزین ہمیشہ ملکی خزانہ پر بوجھ بنے رہیں گے۔ ملک کی تعمیر میں وہ کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے، کیونکہ وہ تعلیم سے روشناس نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو حکومتوں کی طرف سے اچھی ملازمتیں انہیں مہیا کی جاتیں اور ملک کو ٹیکس وصول ہوتا، لیکن اس طبقے کی طرف سے ایسی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ غرض تازہ اطلاعات کے مطابق یہ مختلف جرائم میں بھی ملوث ہیں اور یورپ کی جڑیں کمزور کررہے ہیں۔ یہ ساری باتیں حکومتوں کی نظروں میں آگئی ہیں اور وہ حفاظتی انتظامات کررہی ہیں۔ شہریوں کو ہدایات دی جارہی ہیں کہ اپنی حفاظت کریں، کسی اجنبی کی مدد نہ کریں، دروازے مقفل رکھیں، کریڈیٹ کارڈس کسی کو نہ دیں اور بہت کچھ ، گویا مہاجرین زحمت بن کر نازل ہوئے ہیں۔ یورپی ممالک جو دوسری عالمی جنگ کی تباہی کے بعد آج پھر اونچائی پر پہنچ چکے ہیں تو یہ ان کی برسوں کی محنت اور کٹھن راستوں سے گزر کر بھی سنبھلنے کا عزم تھا۔ ان قوموں نے اور ان کی نسلوں نے بے شمار قربانیاں دیں۔ منزلیں ایسے ہی نہیں مل جاتیں۔ تب وہ فلاحی ریاستوں کے دائرے میں داخل ہونے کے قابل ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اول تو ’’جیو اور جینے دو‘‘ کی گہرائیوں کو سمجھا اور اس پر عمل پیرا ہوئے۔ ملک و قوم کیلئے مرمٹنے کے جذبہ کو اپناکر ایک نئی تاریخ تحریر کی ۔ ملکی سیاست کو صاف ستھرے ماحول میں آگے بڑھانا ان کا اصول بن گیا اور سب سے بڑا اور اہم عزم کے مذہب کو حکمرانی سے بالکل الگ رکھیں گے اور جرم کو بڑھاوا نہیں دیں گے۔ اگر اِس وقت وہ جرم کو ختم کرنے کیلئے سخت کارروائیاں کریں تو یہ زیادتی نہیں بلکہ اپنے ملک و قوم کے ساتھ منصفانہ فیصلہ ہوگا۔