پنجشیر قائد احمد مسعود طالبان سے بات چیت کیلئے تیار

,

   

حملے روکنے پر مزاحمتی فورس بھی لڑائی بند کردے گی ، دارالحکومت میں داخل ہونے طالبان کا دعویٰ

کابل : افغانستان کی وادی پنجشیر میں طالبان اور مخالف اتحاد کی فورسز کے درمیان لڑائی میں شدت پیدا ہوگئی ہے تاہم پنجشیر کے قائد احمد مسعود نے آج کہا کہ وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر طالبان اپنے حملے روک دیں تو ان کی مزاحمتی فورس بھی لڑائی بند کرنے کیلئے تیار ہوجائے گی۔ مزاحمتی فورس نے مسائل کے پرامن حل کیلئے اصولی طور پر اتفاق کیا ہے اور مذاکرات کیلئے فوری طور پر لڑائی بندی پر زور دیا گیا۔ ملک میں بقائے امن کیلئے مزاحمتی فورس لڑائی بند کرنے کیلئے تیار ہے۔ تاہم انہوں نے یہ شرط رکھی کہ طالبان بھی اپنے حملے روک دیں۔ طالبان کے ترجمان بلال کریم نے اپنے ایک ٹوئیٹر میں پولیس ہیڈکوارٹرس اور صوبائی دارالحکومت بازارک کے قریب خنج اور انابہ کے علاوہ دیگر اضلاع پر قبضہ کا دعویٰ کیا ہے اور کہا کہ اپوزیشن کو بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔یہ بھی اطلاع ہیکہ مقامی اہم کمانڈر جنرل ودود زرہ بھی دوران جنگ جاں بحق ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ بھاری اسلحہ و گولہ بارود بھی ضبط کیا گیا۔ اسی دوران امراللہ صالح نے پنجشیر پر طالبان کے حملہ کو روکنے کی اقوام متحدہ سے درخواست کی۔ اسی دوران کابل میں کئی مذہبی اسکالرس نے طالبان اور مزاحمتی فورس سے فوری لڑائی بندی کی اپیل کی اور کہا کہ یہ جنگ غیرواجبی ہے۔ افغانستان کے سابق نائب صدر نے اقوام متحدہ کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے پنجشیر صوبہ میں انسانی بحران سے واقف کروایا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ طالبان نے وادی میں تمام انسانی خدمات کو بند کردیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کے چیئرمین جائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے افغانستان کی صورتحال کے بارے میں کہا کہ ’میرے فوجی تخمینے کے مطابق جو حالات ہیں وہ جاری رہے تو خانہ جنگی کی طرف جا سکتے ہیں۔ جرمنی کی رمسٹیئن ایئر بیس سے فاکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی جنرل نے کہا کہ اگر طالبان اقتدار پر قبضے کو مستحکم کرنے میں ناکام رہے تو اگلے تین برس میں ’القاعدہ دوبارہ ابھر سکتی ہے یا داعش اور دیگر اس جیسے دہشت گرد گروپ پھیل سکتے ہیں‘۔ کابل پر طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ملک میں حکومت کے اعلان سے قبل پنجشیر صوبہ کے ساتھ بات چیت ناکام ہوگئی تھی ۔