پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
سیاسی جماعتیں بشمول مرکز میں برسراقتدار جماعت (حکمران جماعت) اور چیف منسٹرس فی الوقت دو راہوں پر کھڑے ہیں۔ انہیں اب دو چیزوں میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا ہوگا اور یہ دونوں چیزیں ناپسندیدہ ہیں یا پھر مشکل ہیں وہ دراصل مخمصے میں پڑے ہیں۔ آپ کو اس ضمن میں مزید وضاحت کے ساتھ بتاتا ہوں کہ یہ سیاسی جماعتیں بشمول مرکز میں حکمران جماعت اور وزرائے اعلیٰ پینشن کے سوال پر مخمصے میں پڑے ہوئے ہیں۔ آپ سب یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک مخصوص عمر کے تمام ہندوستانی شہریوں کو وظیفہ یا پینشن نہیں ملتا۔ ہندوستان میں ایسی کوئی سماجی طمانیت اسکیم نہیں ہے جو ایک شہری کو کسی وظیفہ کی پیشکش کرتی ہو۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ خانگی شعبہ میں لاکھوں کروڑوں افراد ملازم ہیں لیکن سبکدوشی (ریٹائرمنٹ) کے بعد انہیں کسی قسم کا وظیفہ حاصل نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ ہندوستانی دفاعی فورسیس میں عارضی طور پر شامل کئے گئے عہدیداروں کو بھی وظیفہ نہیں ملتا۔ اگر ہندوستان میں دیکھا جائے تو لوگوں کی عمر کا تناسب کم ہے۔ ایسے میں پینشن کا بہت کم اثر دیکھا جاتا ہے۔ چند لوگوں کو وظیفہ (پینشن) حاصل ہوتا ہے لیکن ان میں سے چند ہی ہوتے ہیں جو ریٹائرمنٹ یا سبکدوشی کے بعد طویل عرصہ تک بقید ِحیات رہتے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 1947ء میں جب ہندوستان آزاد ہوا، ملک میں لوگوں کی اوسط عمر 35 سال کے اندر ہی تھی اور اب یہ بڑھ کر 70 سال ہوگئی ہے۔ اس طرح فی الوقت مرد و خواتین وظیفہ کے بعد 10، 12 سال وظیفہ حاصل کرتے ہیں اور اگر فیملی پینشن کا تصور ہو تو پھر وہ وظیفہ شریک حیات کو جاری رہ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ملازمین پینشن کے تعلق سے چوکس رہتے ہیں۔ ایسے میں ملازمین کے پاس اس ضمن میں ایک مضبوط کیس ہے۔ پینشن ایک ایسا حق ہے جو ایک طویل مدت تک وفادارانہ خدمت کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے یا پینشن کو ہم Deffered Wage بھی کہہ سکتے ہیں یا پھر پینشن ریٹائرمنٹ کے بعد پوری عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کا ایک راستہ ہے، ایک ذریعہ ہے۔ جہاں تک سرکاری ملازمین کا سوال ہے ، حق پینشن نے دلیل کی اس لڑائی میں کامیابی حاصل کی اور وہ فیصلہ بالکل صحیح تھا۔ ایسے افراد سے جو لوگوں کے اس گوشہ کی طرف توجہ دلاتے ہیں، جنہیں حق پینشن حاصل نہیں، جواب یہی ہے کہ حق پینشن سے انہیں بھی فیض یاب ہونے کا موقع ملے یعنی حق پینشن کو ان لوگوں تک بھی وسعت دی جائے جنہیں وظیفہ نہیں ملتا۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو عالمی سطح پر ایک مشترکہ پینشن اسکیم ہونی چاہئے تاکہ لوگوں کے تمام طبقات یا گوشے اس سے استفادہ کریں۔ جہاں تک سرکاری ملازمین کے وظیفہ کا سوال ہے، اس کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ کسی سرکاری ملازم نے سبکدوشی سے قبل جو آخری بنیادی تنخواہ Basic Salary اور مہنگائی بھتہ حاصل کیا، کم از کم اس کی 50% رقم بطور وظیفہ دینا طئے پایا۔
آپ کو یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ جب اولڈ پینشن اسکیم (OPS) کی جگہ نئی پینشن اسکیم کو متعارف کروایا گیا، یہ بات جنوری 2004ء کی بات ہے۔ نیو پینشن اسکیم نے پینشن کے دو ستونوں کو بہت پریشان کیا۔ اس نے Non Contributory Defined فائدہ کی اسکیم کو ایک متعین کنٹری بیوشن اسکیم میں پوری طرح تبدیل کردیا اور اس نے بڑی خاموشی سے اقل ترین پینشن کے تصور کو مسترد کردیا جس کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا۔ اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے اس تعلق سے کوئی قابل لحاظ اقدامات نہیں کئے جبکہ ان کے بعد عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنے 10 سالہ دور اقتدار میں بھی اس ضمن میں کوئی اقدامات نہیں کئے تاہم 2024ء کے لوک سبھا انتخابات کا جو فیصلہ آیا، اس نے اس معاملے میں خاص طور پر صورتحال کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا۔ پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) کے ایک صحافتی اعلامیہ مورخہ 3 اگست 2022ء کے مطابق مرکزی حکومت کے وظیفہ یاب ملازمین کی جملہ تعداد 69,76,240 ہے جبکہ وظیفہ سے متعلق بجٹ مصارف 2024-25ء پر غور کیا جائے تو وہ 2,43,296 روپئے ہے۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ مارچ 2023ء تک نئی پینشن اسکیم کے 23.8 لاکھ مرکزی حکومت کے سبسکرائبرس رہے جبکہ ریاستی حکومت کے سبسکرائبرس کی تعداد 60.7 لاکھ رہی۔ 2024ء میں یہ تعداد کچھ زیادہ یا کچھ کم ہوسکتی ہے لیکن ہم بناء جھجک یہ کہہ سکتے ہیں کہ وظیفہ یابوں کی تعداد ہندوستان کی آبادی کے تناسب کے حساب سے بہت ہی کم ہے۔اگر دیکھا جائے تو Unfunded Pension Scheme وہی ہے جو اولڈ پینشن اسکیم تھی، اسے حکومت نہیں بلکہ کسی نہ کسی کو اس اسکیم کیلئے مالیہ فراہم کرنا ہے۔ یہ حکومت ہوسکتی ہے یا ملازمین یا پھر دونوں ہوسکتے ہیں جبکہ NPS (نیو پینشن اسکیم) ایک ایسی اسکیم ہے جس کیلئے حکومت اور ملازمین دونوں فنڈنگ کرتے ہیں۔ حکومت 14% اور ملازمین 10% فنڈنگ کرتے ہیں۔ اس طرح یونیفائیڈ پینشن اسکیم (UPS) جس کا حکومت نے اعلان کیا ہے، ایک ایسی اسکیم ہے جس کیلئے حکومت 18.5% اور ملازمین 10% فنڈ فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یونیفائیڈ پینشن اسکیم ایسے وظیفہ یابوں کو جنہوں نے 25 سالہ خدمات انجام دینے کے بعد سبکدوشی اختیار کی ان کی بنیادی تنخواہ جو انہوں نے ملازمت کے آخری 12 ماہ کے دوران حاصل کی، اس کی کم از کم 50% رقم کی ادائیگی کی طمانیت دیتی ہے۔ باالفاظ دیگر ماہانہ اقل ترین وظیفہ 10 ہزار روپئے کی ادائیگی یقینی بنائی جائے گی ااور مہنگائی کے لحاظ سے وظیفہ میں اضافہ کا بھی تیقن دیا۔ جس وقت راقم الحروف یہ کالم تحریر کررہا تھا، اس وقت تک اکثر ریاستی حکومتوں نے یونیفائیڈ پینشن اسکیم پر کسی قسم کا تبصرہ نہیں کیا۔