پنڈت نہرو کسی مسئلہ کیلئے ذمہ دار نہیں …

   

غضنفر علی خاں

کھسیانی بلی کی طرح بی جے پی اور اُس کی قیادت کھمبا نوچ رہی ہے اور اس کیلئے وہ ملک کے پہلے وزیر اعظم آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو کو ذمہ دار قرار دے رہی ہے۔ حالانکہ ہر دور کے مسائل مختلف ہوا کرتے ہیں ان کی وجوہات بھی علحدہ علحدہ نوعیت کی ہوتی ہیں ، وہ لوگ جو تاریخ خود سے نہیں بتاسکتے وہ اپنے دور کی ہر غلطی کیلئے گذرے ہوئے زمانے کی شخصیتوں کو اپنے پیدا کردہ ہر مسئلہ کا سبب سمجھتے ہیں۔ خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے بارے میں یہ کہا کہ اس کے لئے آنجہانی پنڈت نہرو بھی ذمہ دار ہیں انتہائی لغو، بے معنی اور ناقابل قبول بات ہے۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم کی حیثیت سے پنڈت نہرو نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے کسی ایسے کینوس پر نقشہ کھینچنے کے مماثل تھے جو ایک سادہ ورق کی تھی، اس سے پہلے بی جے پی کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ پنڈت نہرو اور دیگر لیڈرس جن میں مولانا ابوالکلام آزاد شامل ہیں، قومی رہنما گاندھی جی کی قیادت میں انگریزوں کی غلامی سے ملک کو آزاد کروایا اور پھر یہ کارنامے ان بزرگ رہنماؤں نے بغیر کسی خون خرابہ کے انجام دیئے۔ کشمیر جدوجہد آزادی کے دوران خود ایک مسئلہ تھا اس کے راجہ نے نہ کھل کر ہندوستان میں شامل رہنے کی بات کہی تھی اور نہ پاکستان کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی تھی۔ بالآخر ہوا یہ کہ کشمیر کو دفعہ 370 کے تحت کرکے اس کو خصوصی موقف دیا گیا تھا جس کی موجودہ وزیر اعظم مودی اور ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے اُلٹ پھیر کرکے خصوصی موقف کو ختم کردیا ہے۔ اب یہ کہنا کہ خصوصی موقف کی بحالی اور اس کا واپس لیا جانا چند افراد کی کوششوں کا نتیجہ ہے بالکل بکواس سمجھا جائے گا لیکن ایسا ہی ہورہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ہو یا پھر ہندوستان کا آزمودہ سیکولراز م ہو اُس کو برقرارکھنے کی ضرورت ہے۔ آج ہر چھوٹا بڑا بی جے پی کا لیڈر مختلف ایسے مسائل کیلئے کانگریس پارٹی اور اس کے لیڈرس کو ذمہ دار قراردیتے ہیں حالانکہ آزادی کے 71 برسوں کے بعد آج ہندوستان جس مقام پر کھڑا ہے وہ مقام حاصل کرنے میں اسی کانگریس پارٹی کا ہاتھ ہے۔ مضبوط ہندوستان آزادی کے بعد اُس وقت نہیں بن سکتا تھا جو آج ہے۔ جب تک کہ ملک کی قیادت اور حکمران پارٹی کانگریس کشادہ دلی اور اعلیٰ ترین تحمل پسندی سے کام نہ لی ہوتی ، جو تنگ نظری آج دیکھی جارہی ہے۔ وہ تو اُس دور کے ہندوستان کیلئے اجنبی چیز تھی، نہ تو کہیں تشدد کے ذریعہ کسی مسلمان کو مارا و پیٹا جاتا تھا اور نہ گاؤ رکھشکوں کو اتنی ہمت تھی کہ کسی بھی قسم کی اشتعال انگیز کارروائی کرے وہاں نہ بابری مسجد ڈھائی جاسکتی تھی اور نہ کوئی رتھ یاترا نکال کر سارے ملک میں مسلمانوں کا خون بہایا جاسکتا تھا۔ اُس دور میں مندر اور مسجد کبھی سیاسی اقتدار کے حصول کیلئے مسئلہ نہیں بنے نہ کسی مذہبی عقیدہ کو بُرا بھلا کہا گیا ۔ ایک دوسرے عقیدہ و مذہب کا باہمی احترام ملحوظ رکھا جاتا، ملک بھر میں نئی آزادی کے بعد کوئی فرقہ وارانہ کشیدگی نہیں تھی ، آج تو ہر مسئلہ پر ایسی کشیدگی پیدا کی جاتی ہے جس سے ہندوستانی سماج کے دونوں فرقوں میں پورے زور و شور کے ساتھ تصام ہوجاتا ہے۔ فرقہ پرستی کو کبھی ہوا نہیں دی جاتی تھی بلکہ اس کو ختم کرنے کے لئے خود ملک کی قیادت آگے بڑھتی تھی، آج کی حکومت بھی فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھاوا دینے میں مصروف ہے بلکہ اس کے موقع کی تلاش میں رہا کرتی ہے۔ اس کا عالم یہ ہے کہ کسی معمولی واقعہ کو بھی ملک بھر کیلئے فساد کا ذریعہ بنادیا جاتا ہے۔ جہاں تک پنڈت نہرو کا سوال ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کشادہ ذہن کے مالک تھے، یہ اُن کی خاندانی صفت تھی وہ کبھی چھوٹے ذہن سے نہیں سوچا کرتے تھے، اس کا اندازہ اس طرح سے لگایا جاسکتا ہے کہ نہرو اپنے دور میں وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کو اپنے کابینی رفقاء میں سب سے زیادہ اہمیت دیا کرتے۔ آج ان پر کیچڑ اُچھالنے والوں کو شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ نہرو کو ایک ایسے شخص کی صورت میں قدرت نے نمودار کیا تھا جس کے مقدر میں عظمت اور علم پروری پائی جاتی تھی۔ اگر نہرو ملک کے وزیر اعظم نہ ہوتے تو ایک تاریخ داں کی حیثیت سے اُن کی قدر و منزلت برقرار رہتی۔ آج بھی ان کی لکھی ہوئی کتابیں عالمی ادب کا ایک حصہ مانی جاتی ہیں۔ تاریخ گوئی اور تاریخ نویسی آنجہانی نہرو کا ایک خاص وصف تھا۔ ’’ بھارت ایک کھوج ‘‘ کے نام سے لکھی گئی کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہرو نہ صرف مورخ تھے بلکہ ہندوستان کے ’ مزاج داں ‘ تھے۔ اُن کی بصیرت اور دور بینی کی دنیا معرف تھی ۔ ان خوبیوں کے علاوہ وہ اعلیٰ درجہ کے مدبر اور اڈمنسٹریٹر بھی تھے، یہ وہ صفات عالیہ ہیں جن سے بی جے پی اور اُس کی موجودہ قیادت بالکل بے بہرہ ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی کے لیڈران اور خود امیت شاہ بار بار یہ کہتے ہیں کہ موجودہ مسائل کیلئے نہرو کا دور اقتدار ذمہ دار ہے۔ایسے لوگ جو خود کوئی تاریخ نہیں بناسکتے وہی لوگ ماضی کو کُرید کُرید کر اپنے عہد غلطیوں کے لئے ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ یہ اُن کی پرانی عادت ہے اور اسیے لوگ ہر دور میں پیدا ہوتے ہیں۔ ہندوستان ایک براعظم کی آبادی اور اس کے طویل و عریض رقبہ کا ملک ہے جس پر تاریخی عوامل کا اثر ہی ہوتا ہے۔ اب مودی حکومت دفعہ 370 کو منسوخ کرکے یہ سمجھ رہی ہے کہ اُس نے کشمیر کے دیرینہ اور پیچیدہ مسئلہ کو حل کرلیا ہے، یہ دعویٰ کس حد تک چیلنج ثابت ہوتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ سمجھ کر کشمیر مسئلہ کا بی جے پی نے حل ڈھونڈ لیا ہے کہ حقیقت سے بعید ہے۔ ملک کی معیشت کی موجودہ ابتری کیلئے بھی کانگریس اور نہرو کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے کہ آج کی قیادت اور پنڈت نہرو میں اتنا ہی فرق اور فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان کا ہے۔ ایک وہ زمانہ تھا جب ایک موقع پر پنڈت جی سے سوال کیا گیا کہ اُن کے بعد ہندوستان کی قیادت کون سنبھالے گا، تو انہوں نے بی جے پی کے لیڈر آنجہانی اٹل بہاری واجپائی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے بعد یہی لوگ قیادت کریں گے ۔ یہ اُن کی صاف گوئی اور صاف دلی، اعلیٰ ظرفی ہی تھی کہ انہوں نے ایسا کہا۔ آج کسی کانگریس لیڈر کا نام لیتے ہوئے بی جے پی کو تکلیف ہوتی ہے ۔ نہرو سے کسی بھی بی جے پی لیڈر کا تقابل سورج کو چراغ دکھانے کے مماثل ہے۔ ’’ چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک ‘‘ والی بات ہوتی ہے۔ پنڈت جی نے اپنے دور کے مسائل کو اپنی دانست میں اور اپنے سیاسی تجربات کی روشنی میں صحیح ڈھنگ سے حل کیا، وہ نہ کسی پر اعتراض کیا کرتے تھے اور نہ اپنے کسی کارنامہ پر جیسا کہ موجودہ وزیر اعظم مودی کیا کرتے ہیں اور اپنے آپ کو شاباشی دیا کرتے تھے۔ کچھ کارنامے انجام دینے کے بعد بھی خود کی ستائش کی عادت اُن میں موجود نہیں تھی اس لئے کہ اُن کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی تھی جس میں کسی بھی قسم کی عصبیت اور تنگ نظری کو استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا۔ نہرو کو کسی بھی غلطی کے لئے ذمہ دار قرار دینا انتہائی تنگ نظری اور احساس کمتری کا مظاہرہ ہے جو بی جے پی ان دنوں کررہی ہے۔ لیکن ملک کے عوام اور دور حاضر کا مؤرخ سمجھ رہا ہے کہ اپنی غلطیوں کیلئے اپنے سے پہلے کے لوگوں کو ذمہ دار قرار دینا اُن ہی لوگوں کا کام ہے جن کے حوصلے پست ہوا کرتے ہیں اور جو مستقبل ساز نہیں ہوتے، وہ کبھی ماضی میں جھانک کر عیب جوئی نہیں کرتے بلکہ آنے والے دور کے مسائل پر نظر رکھ کر اُن کی یکسوئی کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کام شاید آج کے سیاستدانوں اور خاص طور پر بی جے پی کے تمام قائدین کے لئے ممکن نہیں ہے۔ اسی لئے وہ ماضی کی غلط انداز میں تشریح کرتے ہیں اور اپنے سے پہلے کی پیڑھی کو اُس کا ذمہ دار قرار دے کر یا پھر جھوٹ کاسہارا لے کر اپنے ہی بزرگوں کا استحصال کرتے ہیں۔تاریخ کو مٹایا نہیں جاسکتا ، وہ تو حروف کی شکل میں کئی کتابوں میں مقفل ہے۔ صرف کسی کو بُرا بھلا کہہ کر اپنی عظمت کو نہیں بڑھایا جاسکتا۔ عظمت خود کسی لیڈر کے اندر چھپی ہوئی ہوتی ہے اورجب قدر ت چاہتی ہے تو کسی بھی شخص کی اس خوبی کو منظر عام پر لاتی ہے۔ یہی کچھ پنڈت نہرو کے ساتھ ہوا ہے۔ ملک اور ہندوستانی قوم بھی اُن کے کارناموں کو فراموش نہیں کرسکتی۔ اس طرح کی تنقیدیں ایک انتہائی چھوٹے اور جھوٹے ذہن کی عکاسی کرتی ہیں جو آج ڈنکے کی چوٹ پر بی جے پی اور اس کے لیڈران کررہے ہیں۔٭