پوسٹ پارٹم ڈپریشن، وجوہات، مسائل اور علاج

   

حیدرآباد ۔ بچے کی پیدائش کے بعد ماؤں پر مایوسی اور بے سکونی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جسے ماہرین پوسٹ پارٹم ڈپریشن کا نام دیتے ہیں۔ ماہرین امراض نسواں کے مطابق بچے کی پیدائش کے بعد ماں کو چھ ہفتوں تک تناؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، عام طور پر یہ کیفیت ہارمونل تبدیلیوں، زچگی میں نفسیاتی ہم آہنگی اور تھکاوٹ کی وجہ سے ہوتی ہے جسے بعد از پیدائش ڈپریشن پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی اصطلاح دی گئی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں 13فیصد خواتین بچے کی پیدائش کے بعد اس تناؤکا شکار ہوتی ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح 20 فی صد ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق خواتین میں پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی شرح 28 فیصد ہے، اگر پوسٹ ڈیلیوری ڈپریشن کی علامات پر نظر ڈالیں تو اس میں شدید تکلیف، مایوسی، اْداسی، تھکن، کمزوری، غصہ چڑچڑاپن، بے سبب رونا، چیخنا، نیند کی کمی یا زیادتی، سردرد، چھوٹی چھوٹی باتوں پرخود کو الزام دینا، اپنے آپ کوکم تر اور بے وقعت محسوس کرنا، بچے سے محبت یا انسیت محسوس نہ ہونا، بچے کو یا خود کو نقصان پہنچانے کے خیالات کا آنا اور خودکشی یا مر جانے کے خیالات شامل ہیں۔ طبی ماہرین کے بموجب یہ ایک شدید بیماری ہے جو ہر 500 میں سے ایک ماں کو متاثر کرتی ہے اور عام طور پر بچے کی پیدائش کے کچھ دنوں یا ہفتوں بعد شروع ہوتی ہے، یہ بیماری زندگی کے لیے خطرہ بھی ثابت ہو سکتی ہے اس لیے اس کا فوری علاج لازمی ہے۔
پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی وجوہات: حمل کے اختتام اور زچگی کے وقت صبح میں ہونے والی ہارمونز کی تبدیلیوں کے اثرات ایک بہت بڑی وجہ ہے، سماجی اور نفسیاتی وجوہات بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں، اختلافات، شوہر اور سسرال والوں کا عدم تعاون اور اکیلے رہنے والی خواتین میں اسکا زیادہ امکان ہوتا ہے۔اس کے علاوہ وہ عورتیں جن میں پہلے سے کوئی نفسیاتی بیماری ہو وہ بھی اس کا شکار ہو سکتی ہیں، کام کی زیادتی اور نیند کی کمی بھی کردار ادا کرتی ہے۔
پوسٹ پارٹم ڈپریشن کا علاج: جہاں تک علاج کا تعلق ہے تو تعاون، دوا، تھراپی، زیادہ تر محفوظ ادویات مریضہ کو تجویز کی جاتی ہیں جس کے نتائج چھ سے آٹھ ہفتوں میں سامنے آتے ہیں، یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر ماں تناؤ کا شکار ہو تو بچے کے باپ کا بھی ڈپریشن کا شکار ہونے کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہے ۔ پوسٹ پارٹم ڈپریشن سے بچاؤ کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ڈیلیوری کے بعد چیک اَپ ضرور کروائیں، گھر والوں سے مدد حاصل کریں، شوہر کا تعاون بہت ضروری ہوتا ہے۔ چائے اور کافی کا استعمال کم کریں، چہل قدمیکریں ، گھر سے باہر نکلیں، بچہ سو جائے تو خود بھی نیند پوری کرنے کی کوشش کریں۔