’برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر ‘
ہندو ۔ مسلم دو آنکھیںہونے کا دعوی کرنے کے باوجود دو نظری ۔ میڈیکل طالبہ پریتی اور کتوں کے حملے میں فوت پردیپ کے ورثاء کو 10 لاکھ امداد کا اعلان
حیدرآباد ۔ 28 ۔ فروری (سیاست نیوز) جمہوریت میں انصاف کی سب سے بڑی اہمیت ہوتی ہے ، جب اس معاملہ میں توازن بگڑجاتا ہے تو سماج میں غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے۔ ایک اس طرح کا واقعہ ریاست میں عبدالقدیر خان کے ساتھ پیش آیا ہے۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تلنگانہ میں تین انتہائی دردناک واقعات پیش آئے ہیں۔ تینوں کی نوعیت علحدہ ہے مگر اہمیت یکساں ہے ۔ تینوں واقعات میں انسانی زندگیاں ضائع ہوئی ہیں۔ پولیس کے ہاتھوں عبدالقدیر خان کی موت اور آوارہ کتوں کے حملہ میں ایک معصوم کی موت واقع ہوئی ہے ۔ ایم جی ایم ہاسپٹل میں ایک میڈیکل طالبہ نے خودکشی کی ہے ۔ تینوں واقعات ساری ریاست میں موضوع بحث بنے رہے۔ میڈیکل طالبہ کی خودکشی پر حکومت نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ۔ ریاستی وزراء ہریش راؤ ، ستیہ وتی راتھوڑ، ای دیاکر راؤ نے نمس ہاسپٹل پہنچ کر زیرعلاج طالبہ کی مزاج پرسی کی ، ان کے ارکان خاندان سے ملاقات کی ہے۔ زندگی اور موت کے درمیان کشمکش کرتے ہوئے زندگی ہار جانے والی پریتی کے ارکان خاندان سے ملاقات کرتے ہوئے وزراء نے نہ صرف پریتی کے موت پر صدمہ کا اظہار کیا بلکہ حکومت سے متوفی کے ارکان خاندان کیلئے 10 لاکھ روپئے ایکس گریشیا کا اعلان کیا اور خاندان کے ایک فرد کو سرکاری ملازمت دلانے اور خاطی کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا تیقن دیا ۔ کے ٹی آر اور کویتا نے بھی اس کی سخت مذمت کی ۔ شہر حیدرآباد کے عنبرپیٹ میں آوارہ کتوں کے حملہ پر بھی حکومت نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ۔ ریاستی وزیر داخلہ محمد محمود علی اور ریاستی وزیر سینماٹو گرافی ٹی سرینواس یادو ، میئر حیدرآباد نے عہدیداروں کا اجلاس طلب کیا اور آوارہ کتوں کو کنٹرول کرنے کی حکمت عملی تیار کی ۔ کے ٹی آر کے علاوہ بیشتر وزراء اور مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین نے پریتی اور معصوم کی موت پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ۔ بالآخر آج جی ایچ ایم سی نے کتوں کے حملہ میں ہلاک ہونے والے معصوم پردیپ کے ورثاء کو 10 لاکھ روپئے ایکس گریشیا دینے کا اعلان کیا ہے ۔ ان میں 8 لاکھ روپئے جی ایچ ایم سی ادا کرے گی اور 2 لاکھ روپئے کارپوریٹرس کی تنخواہ سے ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ دونوں واقعات کیلئے حکومت اور جی ایچ ایم سی نے ایکس گریشیا کا اعلان کیا ہے جو قابل ستائش اقدام ہے ۔ اس پر کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہے ۔ ان دونوں واقعات کے لئے حکومت وزراء مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین نے ہمدردی کا اظہار کیا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے احتجاج بھی کیا ہے لیکن انہی دنوں میں ایک اور دردناک واقعہ بھی پیش آیا ۔ وہ ہے پولیس کی مارپیٹ سے عبدالقدیر خان کی موت واقع ہوگئی تھی ۔ حکومت نے اس پر کوئی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ۔ وزرا خاموش رہے ، اپوزیشن جماعتیں خاموش رہے، کسی نے حکومت پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا اور نہ ہی حکومت نے عبدالقدیر خان کے ورثاء کیلئے کوئی ایکس گریشیا کا اعلان کیا اور نہ ہی وزراء نے عبدالقدیر خان کے گھر پہنچ کر ان کے ارکان خاندان سے ملاقات کی ہے ۔ واقعہ میں ملوث صرف چار پولیس ملزمین کو معطل کرتے ہوئے پولیس کے ظالمانہ رول سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ محکمہ پولیس کو یقین ہے کہ پولیس نے عبدالقدیر خان کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ہے ۔ اس لئے چار پولیس ملازمین کو معطل کیا گیا ہے ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے عبدالقدیر خان کو کیوں ایکس گریشیا کا اعلان نہیں کیا ہے اور وزراء اور سیاسی قائدین پولیس کے وحشیانہ سلوک کی مذمت نہیں کی ہے ، یہ ایسے سوالات ہیں جو مسلمانوں کے ذہن میں گونج رہے ہیں۔ اس کی وضاحت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ اگر عبدالقدیر خان کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا تو ہندو مسلم دو آنکھیں ہونے کا دعویٰٰ اور گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینے کا نعرہ جھوٹا ثابت ہوکر رہ جائے گا۔ن