پولیس ‘ برسر اقتدار جماعتوں کی کٹھ پتلی

   

اہلِ دل اب خطا کریں نہ کریں
کھل چکا ہے مگر درِ زنداں
ملک بھر میں اکثر و بیشتر ایسے حالات و واقعات پیش آ رہے ہیں جن سے ایسا لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کو بھی تشویش ہونے لگی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت کی جانب سے ان کے خلاف ریمارکس اور تبصرے کئے جا رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں سے کچھ امور پر عدالت نے اپنے تبصروں کے ذریعہ صورتحال کی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اب سپریم کورٹ نے ایک ایسا ریمارک کیا ہے جس سے ملک کے عوام کی اکثریت اتفاق کرتی ہے ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ملک یں یہ تشویشناک رجحان بن گیا ہے کہ پولیس عہدیدار برسر اقتدار پارٹی کے طرفدار بنتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا ریمارک ہے جو صورتحال کی سنگینی اور حقیقت کو ظاہر کرتا ہے ۔ اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ ہندوستان کی تقریبا ہر ریاست میں اور مرکزی سطح پر حکومتوں کی جانب سے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کیلئے اور انہیں ہراساں کرنے کیلئے پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیوں کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ان ایجنسیوں اور پولیس فورس کے عہدیدار بھی برسر اقتدار جماعتوں کی کٹھ پتلی بن گئے ہیں ۔ ان کے اشاروں پر کام کرتے ہوئے حکومت کے پسندیدہ افراد میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس کیلئے وہ اپنے عہدوں کے وقار کو اور غیرجانبداری کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ اس طرح کے رجحان کا ہی نتیجہ ہے کہ عوام میں پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیوں پر سے اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ لوگ قانونی کارروائیوں پر شبہات کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ ملک کی کئی ریاستوں میں بے شمار واقعات ایسے پیش آ رہے ہیں جہاں پولیس عہدیدار برسر اقتدار جماعت کے کارکنوں کی طرح کام کر رہے ہیں۔ عوام کو انصاف رسانی کی ذمہ داری اور فریضہ سے تغافل برتا جا رہا ہے ۔ حقیقی ملزمین اور خاطی کئی واقعات میں کھلے عام گھوم رہے ہیں اور ان پر کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے ۔ اس کے برخلاف جو بے گناہ اور معصوم ہیں انہیں مقدمات میں ماخوذ کرتے ہوئے سلاخوں کے پیچھے بھیجا جا رہا ہے ۔ اس طرح سے انصاف کا اور انصاف رسانی کے تقاضوں کا قتل ہو رہا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں ملک میں قانون کی بالادستی بھی مشکوک ہوتی جا رہی ہے اور عوام بھروسہ کھوتے جا رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے چھتیس گڑھ کے ایک معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے یہ ریمارک کیا ہے ۔ چھتیس گڑھ کا معاملہ ہی واحد نہیں ہے ۔ کئی ریاستوں اور مرکزی سطح پر یہ روایت عام ہوتی جا رہی ہے بلکہ اسے اقتدار کا لازمی حصہ بنادیا گیا ہے ۔ اترپردیش میں حکومت کے خلاف احتجاج تک کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے اور احتجاج کرنے والوں کو انتہائی سنگین مقدمات میں ماخوذ کرتے ہوئے کسی ثبوت و گواہ کے بغیر جیل بھیجا جا رہا ہے ۔ یہ محض حکومت کے اشاروں پر ہو رہا ہے اور حکومت سے خیرسگالی جذبات بنائے رکھنے کی خاطر اپنے فریضہ سے پہلو تہی کی جا رہی ہے ۔ اس کے برخلاف اسی اترپردیش میں معصوم لڑکیوں اور خواتین کی عصمت ریزی ہو رہی ہے ‘ انہیں زندہ جلایا جا رہا ہے یا قتل کیا جا رہا ہے ۔ ایسا کرنے والے ملزمین کھلے عام آزاد گھوم رہے ہیں۔ کسی متاثرہ کیلئے انصاف کی جدوجہد کرنے والے اس کے والد کو پولیس تحویل میں موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ۔ یہ سب کچھ کرنے والے آزاد اور کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ ان کے خلاف بھی کارروائی اس لئے نہیں ہو رہی ہے کیونکہ یہ تمام لوگ برسر اقتدار جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ حکومت کو ان کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ لوگ حکومت کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے بلکہ حکومت کے مخالفین کو بھی ٹھکانے لگانا جانتے ہیں۔ اسی طرح ملک کی دوسری ریاستوں کی بھی صورتحال ہے جہاں محض حکومت کے اشاروں پر کام کرنے والی پولیس کی وجہ سے سارا انصاف رسانی کا عمل متاثر ہو رہا ہے ۔
پولیس اور دوسری تحقیقاتی اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو انصاف دلائیں۔ جرائم کا خاتمہ کرنے کیلئے آگے آئیں۔ اپنے فرائض کسی جانبداری کے بغیر پیشہ ورانہ دیانت کے ساتھ انجام دیں۔ لیکن ایسا ہو نہیں رہا ہے ۔ مرکزی سطح پر بھی حکومت کی جانب سے مخالفین کو دھمکانے یا ہراساں کرنے کیلئے ان ایجنسیوں کے ذریعہ مقدمات درج کروائے جا رہے ہیں۔ محض حکومت کی مخالفت پر ملک سے غداری کے مقدمات تک درج کرنے سے پولیس گریز نہیں کر رہی ہے ۔ سپریم کورٹ کے اس ریمارک کے بعد پولیس کو اپنی روش بدلنے کی ضرورت ہے ۔ انصاف کی تقاضوں کی تکمیل کیلئے پولیس کو کام کرنا چاہئے ۔