پولیس کو اعتماد بحال کرنا چاہئے، خوف نہیں

   

کرن تھاپر
میں اس قسم کا شخص نہیں ہوں جس کا پولیس کے ساتھ آمنا سامنا ہوچکا ہو درحقیقت یہ صرف ایک بار ہوتا ہے، میں 21 سال کا تھا اور کیمبریج کا انڈرگریجویٹ تھا۔ میں واضح طور پر غلطی پر تھا۔ یہ ایک متضاد بات ہے کہ برطانیہ کی پولیس نے اس موقع پر ایسا رویہ اختیار کیا تھا جیسا کہ آج دہلی پولیس کا ہے، میں اسی کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں۔
دوستوں کے ایک گروپ کے ساتھ میں بے نظیر بھٹو کی قیامگاہ سے آکسفورڈ یونین کے ایک مباحثہ میں شرکت کے بعد واپس ہو رہا تھا جس کی صدارت بے نظیر بھٹو نے کی تھی ہم نے فیصلہ کیا کہ دیہات کا راستہ اختیار کیا جائے جو ہمیشہ سنسان اور اندھیرے کی گرفت میں رہتا تھا، میرے حوصلے بلند تھے۔ ہم ڈنر جیکٹ میں ملبوس تھے اور اونچی آواز میں گارہے تھے۔ ہمیں امید تھی کہ ہم 2 بجے شب سے پہلے واپس ہو جائیں گے۔ اچانک ایک پولیس کی کار نظر آئی جس کی ہیڈ لائٹ چمک رہی تھی اور انہوں نے حکم دیا ’’فوری رک جاؤ‘‘

’’ٹھیک ہے شریف آدمیو آپ کی شام واضح طور پر بہت اچھی تھی، اس لئے حماقت کرتے ہوئے اسے تباہ کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہو، گاڑی سست رفتار سے چلاؤ اور گھر جاکر سوجاؤ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آپ گہری نیند سوئیں گے۔‘‘ پولیس ملازمین دیکھ سکتے تھے کہ ہم کمسن تھے، بے وقوف تھے اور واضح طور پر غلطی پر تھے لیکن پولیس کی نظروں میں ہم حکم کے زیادہ مستحق تھے سزا کے نہیں چنانچہ ان کا رویہ کئی برطانوی ملازمین پولیس کے رویہ کے مطابق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نرمی سے ہمیں بابیز کہا تھا۔
اب دہلی پولیس پر غور کیجئے جو فروری کے فسادات کی تحقیقات کررہی تھی۔ سینئر عہدہ داروں نے انتباہ دیا تھا کہ کانسٹبلوں کو ہندو نوجوانوں کو ملزم نہ قرار دیں لیکن مسلم نوجوانوں کے بارے میں ایسا کوئی انتباہ جاری نہیں کیا گیا تھا حالانکہ فسادات میں ہلاک ہونے والے 53 افراد میں سے 38 مسلم تھے لیکن 15 افراد کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی تھی، جن میں سے 13 مسلمان تھے۔

جب طلبہ نے شہریت (ترمیمی) قانون کے اور قومی رجسٹر برائے شہریان کے خلاف احتجاج کیا تو انہیں سازش کرنے کا ملزم قرار دیا گیا۔ برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جس نے واضح طور پر نفرت اور تشدد کی ترغیب دی تھی ان کو ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا۔نامور اپوزیشن قائدین جیسے سیتارام یچوری پر ’’اشتعال انگیزی اور ہجوم کو متحرک کرنے کے الزامات عائد کئے گئے۔ ‘‘ اسی کی بنیاد پر ملزمین میں سے ایک نے ایسا کہا تھا لیکن خود ساختہ گواہوں نے انگریزی زبان سے گریجویٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، گواہی پر ان کے دستخط نہیں تھے۔ دہلی پولیس کے رویہ سے ہماری مایوسی کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ انتہائی محترم سابق کمشنروں میں سے ایک نے پرزور انداز میں اور برسر عام اس پر تنقید کی ہے۔ میں ان کے قول کی یاددہانی سے قبل سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ کو اجئے شرما یاد ہیں جن کا تقرر اے بی واجپائی نے کیا تھا۔
ایک انٹرویو میں جو 28 فروری کو نشر کیا گیا تھا شرما نے کہا تھا کہ انہیں انتہائی فکر ہے کہ پولیس فرقہ پرست بن گئی ہے۔ فسادات کے دوران ان کے رویہ سے واضح طور پر اس کا ثبوت ملتا ہے۔ مساوی طور پر فکر مندی کی بات یہ ہے کہ پولیس بی جے پی سے خوفزدہ معلوم ہوتی ہے۔ اسے حکومت کی جانب سے دھمکایا جارہا ہے۔ ’’مہارت کا فقدان یہاں اصل مسئلہ ہے‘‘۔ انہوں نے پوری دیانتداری سے اعتراف کیا تھا، انہوں نے کہا کہ اعصاب کا اور اخلاقی کردار کا فقدان رکھتی ہے۔ میں نے شرما سے پوچھا تھا کہ وہ انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما اور کپل مشرا کے بارے میں کیا کریں گے اگر وہ پولیس کمشنر ہوتے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ان کی میعاد بہت کم تھی پھر بھی ’’اگر میں ہوتا تو انہیں گرفتار کرلیتا‘‘۔ میں نے پوچھا کہ وہ وید پرکاش سوریہ ڈپٹی کمشنر کے ساتھ کیسے نمٹتے جو مشرا کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے جبکہ انہوں نے ہجوم کو دھمکی دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ فوری طور پر ان سے وضاحت طلبی کرتے اور اگر وہ مطمئن کرنے والی نہ ہوتی تو انہیں فوری معطل کردیتے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی شرما تھے جنہوں نے ہندوستانی ملازمین پولیس کا برطانوی ہم منصبوں کے ساتھ تقابل کیا تھا۔ میں مسکرایا جب انہوں نے کہا تھا کہ برطانوی ملازمین پولیس کو لوگ بابیز قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ ان پر اعتماد رکھتے ہیں۔ ہندوستانی ملازمین پولیس نے شک و شبہ اور خوف پیدا کیا ہے۔
ہندوستان میں ہمارے لئے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ملازمین پولیس کو پسند کیا جائے گا۔ ہمارا تجربہ اس کو تسلیم کرنے کے لئے ناممکن بن چکا ہے۔ اس کے باوجود تھوڑی سی ضمیر کی کوشش کے ذریعہ حالات تبدیل ہوسکتے ہیں۔ شرما نے مجھ سے کہا تھا کہ پہلا اقدام یہ ہونا چاہئے کہ پولیس سیاسی مداخلت قبول نہ کرے لیکن صرف اتنا ہی نہیں جو کانسٹبل مقامی پولیس اسٹیشنوں پر مقرر کئے جائیں عوام کے ساتھ ربط میں رہیں اور عوام پولیس کے ساتھ ربط برقرار رکھیں۔ دونوں کو ایک دوسرے کا دوست، موثر ساتھی اور انکساری کا رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ کیا دہلی پولیس کے کسی رکن کو یا حکومت کو مسٹر شرما کی بات سننے کی