دہلی فساد
نئی دہلی: دہلی فسادات کے معاملہ میں ایک مرتبہ پھر دہلی پولیس کا جانبدارانہ چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے۔فسادات میں شامل اکثریتی طبقہ کے گناہگاروں کو بچانے کیلئے اسپیشل دہلی پولیس کمشنر (کرائم ) پرویر رنجن کی جانب سے فسادات کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسران اورایجنسیوں کے نام8 جولائی کو جوایڈوائزری جاری کی گئی ہے وہ منظر عام پر آ گئی ہے جس کے بعد دہلی پولیس کٹہرے میں ہے۔ ایڈوائزری میں اکثریتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے ملزمین کی گرفتاری پر ’’ہندووں میں ناراضگی‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے تفتیشی افسران کو ’’احتیاط‘‘ برتنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اسے اکثریتی فرقے سے تعلق رکھنے والے فسادیوں کو بچانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اس شکایت کے بیچ کہ فساد کے نام پر صرف مسلمانوں کی ہی گرفتاریاں کیوں ہورہی ہیں، دہلی پولیس کی مذکورہ ایڈوائزری نے تمام سوالوں کے جواب دیدیئے ہیں۔ انڈین ایکسپریس میں شائع ہونے والی اس خبر کے تعلق سے کانگریس کے ترجمان اور سابق رکن پارلیمنٹ م افضل کا کہنا تھا کہ ’’اگر یہ خبر صحیح ہے تو یہ بہت ہی حساس ، خطرناک اور قانون کی خلاف ورزی کا معاملہ ہے۔ فسادات کی تحقیقات کرنے والے افسران و ایجنسیوں کو گائیڈ کیا جائے کہ وہ ایک خاص طبقہ (ہندو) کے تعلق سے احتیاط سے کام لیں اور سرکاری وکیل سے مشورہ کرکے مقدمات تیار کیے جائیں یہ غیر قانونی ہے کیونکہ تحقیقات میں وکیل استغاثہ کسی بھی طرح کی دخل اندازی نہیںکر سکتے اور اگر یہ کیا جا رہا ہے تو یہ جرم ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ اس معاملے میں اسپیشل کمشنر آف پولیس کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہئے۔ انھوںنے کہا کہ فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلہ میں اگر تحقیقات ہو رہی ہیں تو ان کو حق نہیں ہے کہ وہ جانبداری کا مظاہرہ کریں ، یہ بہت ہی شرمناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جہاں تک گرفتاریوں کی صورت میں ایک خاص طبقہ کی بے چینی کا سوال ہے تو یہ بے چینی دوسرے طبقہ میں بھی تو ہے، تو کیا وہ انھیں نظر نہیں آئی ؟ ایک طبقہ کو چھوٹ دی جائے اور دوسرے پر جھوٹا مقدمہ درج کیا جائے یہ کہاں کا قانون ہے ؟ ‘‘ معروف سماجی کارکن شبنم ہاشمی نے مذکورہ ایڈوائزری کھلم کھلا قانون کی دھجیاں اڑانے کے مترادف قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’انوراگ ٹھاکر ، کپل مشرا اورپرویش ورما کو کلین چٹ دی جاتی ہے اور سی اے اے کے خلاف تحریک چلانے والے طلباء ، سماجی کارکنان اور لیڈران کو گرفتار کیا جاتا ہے۔
