پوٹن ،یوکرین کے حملے کا جواب دینے کے پابند :ٹرمپ

   

واشنگٹن5جون (یو این آئی)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ٹیلیفونک گفتگو میں واضح کیا ہے کہ ماسکو یوکرین کے ڈرون حملے کا جواب دینے کا پابند ہے ۔سی این این کی رپورٹ کے مطابق ایسے وقت میں جب امریکی صدر جنگ ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، روس کا ردعمل تنازع میں مزید شدت پیدا کر سکتا ہے ۔یہ چند ہفتوں میں دونوں رہنماؤں کے درمیان دوسری بار بات چیت تھی، ٹرمپ نے فون کال کے بعد ٹروتھ سوشل پر پوسٹ کے ذریعے اس بات کا اعلان کیا، انہوں نے پوتن پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنے یا اس حملے کے ردعمل کو محدود رکھنے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔اس کے بجائے ٹرمپ نے تسلیم کیا کہ 75 منٹ کی گفتگو سے فوری طور پر جنگ ختم ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ہم نے روس کے ہوائی جہازوں پر یوکرین کے حملے کے بارے میں بات کی، اور دیگر مختلف حملوں پر بھی جو دونوں طرف سے کیے جا رہے ہیں، یہ ایک اچھی گفتگو تھی، لیکن ایسی نہیں جس سے فوری امن حاصل ہو جائے ۔انہوں نے کہا کہ صدر پیوٹن نے بہت زور دے کر کہا ہے کہ وہ ایئر فیلڈز پر حالیہ حملے کا جواب دینے پر مجبور ہوں گے ۔کریملن کے مشیر یوری اوشاکوف نے ٹرمپ-پیوٹن کال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین کے ایئر فیلڈز پر حملے کا موضوع بھی زیر بحث آیا، لیکن یہ نہیں بتایا کہ آیا پوتن نے ان حملوں کا جواب دینے کا عندیہ دیا یا نہیں۔ٹرمپ کی جانب سے اس کال کی سادہ سی تفصیل سے امن کوششوں میں کسی بڑی پیش رفت کا کوئی ثبوت نہیں ملا، یوکرینی قانون ساز الیگزینڈر میرژکو نے ‘سی این این’ کے جِم شیوٹو سے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ ٹرمپ درپردہ طور پر روسی جوابی کارروائی کی منظوری دے رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے کچھ ایسا نہیں کہا کہ ولادیمیر، رک جاؤ، اور یہ بہت تشویش ناک ہے ، کیوں کہ یہ ایسا لگ سکتا ہے ، جیسے وہ پوتن کے نئے جرم کو ایک طرح سے گرین سگنل دے رہے ہیں۔ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ 2 ہفتوں کے اندر یہ طے کر لیں گے کہ آیا پوتن جنگ بندی پر سنجیدہ ہیں یا نہیں، مگر یہ واضح نہیں کیا کہ وہ یہ فیصلہ کیسے کریں گے ، اس دوران، ٹرمپ پر روس پر مزید پابندیاں لگانے کا دباؤ بڑھ رہا ہے ، جس کی وہ اب تک مزاحمت کرتے آئے ہیں۔روسی اور یوکرینی حکام نے اس ہفتے استنبول میں جنگ ختم کرنے کے لیے براہ راست مذاکرات کیے ، مگر دونوں فریق اپنے مؤقف پر قائم رہے ، ٹرمپ نے ان مذاکرات کے لیے دونوں فریقین کو ایک ساتھ بٹھانے کا کریڈٹ لیا۔