ماسکو : روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور شامی صدر بشار الاسد نے ماسکو میں ایک براہ راست ملاقات میں شام میں غیر ملکی افواج کی اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے بغیر موجودگی پر سخت تنقید کی ہے۔2015ء کے بعد شامی صدر کی اپنے ایک طاقتور دیرینہ اتحادی ملک روس کے صدر کے ساتھ ماسکو میں یہ ملاقات پیر تیرہ ستمبر کو ہوئی۔ قبل ازیں روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے 2018 ء میں شامی رہنما کی میزبانی بحیرہ اسود کے پْر فضا مقام سوچی میں اپنی صدارتی رہائش گاہ پر کی تھی۔روسی فضائیہ نے شامی تنازعے کا دھارا کافی حد تک بشار الاسد کے حق میں اور ان کی طرف موڑنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ خاص طور سے 2015 ء میں روس نے شام میں بشار الاسد کے ہاتھوں سے نکل جانے اور باغیوں کے کنٹرول میں آنے والے علاقوں کی بازیابی اور انہیں دوبارہ سے بشار الاسد کے کنٹرول میں لانے کے عمل میں بہت مدد کی تھی۔ تب روسی فضائیہ نے اپنے دستے شام میں تعینات کیے تھے۔برسوں سے خانہ جنگی سے دوچار عرب ریاست شام کے کئی علاقے اب بھی ریاستی کنٹرول میں نہیں ہیں۔ شام کے بیشتر شمالی اور شمال مغربی علاقوں میں ترک افواج تعینات ہیں۔ اس علاقے کو اسد مخالف باغیوں کا آخری گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اْدھر کردوں کے زیر کنٹرول شام کے مشرقی اور شمال مشرقی علاقے میں امریکی فوجی تعینات ہیں۔ 2011 ء میں جب سے شام کی خانہ جنگی کا آغاز ہوا ہے صدر اسد، جنہیں ایران کی حمایت حاصل رہی ہے، نے چند بیرونی ممالک کے دورے کیے۔