پی چدمبرم
گزشتہ ہفتہ میں نے یہ لکھا تھا کہ مرکز اور ریاستوں کے درمیان تعلقات ایسے خراب ہوگئے ہیں جو کبھی نہیں تھے ۔ پچھلے چند دنوں سے ایک اور اہم نکتہ محسوس کیا گیا جو محاصل میں کٹوتی کیلئے بہت کچھ کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ 21 مئی کو وزیر فینانس نے اعلان کیا کہ حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر بالترتیب 8 روپئے اور 6 روپئے اکسائیز ڈیوٹی میں کمی کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس سلسلے میں نوٹیفکیشن جان بوجھ کر تاخیر سے جاری کیا گیا اور دن کے آخری حصہ میں وہ دستیاب رہا۔ اُس دن تمام ٹی وی چیانلوں نے پٹرول اور ڈیزل پر قیمتوں میں کمی کا پرجوش انداز میں اعلان کیا اور رات میں بھی حکومت کے اس فیصلے پر چرچہ کی گئی اور تمام اخبارات میں دوسرے دن اس تعلق سے رپورٹس شائع ہوئیں کہ پٹرول اور ڈیزل پر جو اکسائز ڈیوٹیز عائد کی گئی ہیں ، ان میں کٹوتی کی گئیں (جو ریاستوں کے ساتھ بانٹی جاتی ہیں)۔ ٹی وی چیانلوں میں اور اخبارات میں جو بھی رپورٹس شائع ہوئیں ، وہ بالکل غلط تھیں کیونکہ جو کٹوتی کی گئی، وہ اکسائز ڈیوٹی میں نہیں بلکہ اضافی اکسائز ڈیوٹیز میں کی گئی (جو ریاستوں کے ساتھ نہیں بانٹی جاتی)۔ 22 مئی کو مرکزی وزیر فینانس نے ریاستوں کو یہ کہتے ہوئے غیرت دلانے کی کوشش کی کہ میں نے ڈیوٹیز میں کمی کی ہے، اب آپ لوگ اضافی قدر ٹیکس میں کمی کریں۔ دراصل وزیر فینانس کا وہ بیان مسابقت کے ایک رجحان کی کوشش تھی جیسے ہی اعداد منظر عام پر آئے ، یہ واضح ہوگیا کہ مرکز کے پاس پٹرول اور ڈیزل پر ویاٹ یا اضافی قدر ٹیکس میں کمی کرنے کیلئے ریاستوں سے کہنے کا کوئی کیس نہیں۔
اعداد جھوٹ نہیں بولتے
پہلے چلئے ’کٹوتی‘ کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ کہنا ضروری ہے کہ مرکزی حکومت نے ایڈیشنل اکسائز ڈیوٹی (جسے روڈ اینڈ انفراسٹرکچر یا RIC)، اسپیشل ایڈیشنل اکسائز ڈیوٹی ( ایس اے ای ڈی) اور اگریکلچر اینڈ انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (اے آئی ڈی سی) سے جمع کردہ رقم ایک متوقع خوشی کی حیثیت رکھتی ہے۔ مطلب حکومت نے ڈیوٹیز میں تخفیف یا کٹوتی کا جو فیصلہ کیا، ہم اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ ایڈیشنل اکسائز ڈیوٹی، آر آئی سی، ایس اے ای ڈی اور اے آئی ڈی سی ایسے محاصل ہیں جو ریاستوں سے بانٹیں نہیں جاتے یعنی اس میں ریاستوں کی حصہ داری نہیں ہوتی۔ مئی 2014ء میں پٹرول اور ڈیزل پر جو تمام اکسائز ڈیوٹیز عائد کی گئی تھیں، وہ بالترتیب 9.48 روپئے فی لیٹر اور 3.56 روپئے فی لیٹر تھی ، لیکن 21 مئی 2022ء تک مرکزی حکومت نے اِن ڈیوٹیز کو بڑھا کر پٹرول پر 27.9 روپئے فی لیٹر اور ڈیزل کو 21.80 روپئے فی لیٹر کردیا گیا۔ اس طرح پٹرول اور ڈیزل فی لیٹر اکسائیز ڈیوٹیز میں زائد از 18 روپئے کا اضافہ ہوا ہے۔ چلئے اب دیکھتے ہیں کہ مرکز۔ ریاست کے درمیان جو بنیادی اکسائز ڈیوٹیز کی تقسیم عمل میں آتی ہے اور آر آئی سی جیسے سیس جس کی تقسیم عمل میں نہیں آتی، ان دونوں میں سے کونسی ڈیوٹی میں تخفیف کی گئی۔ مثال کے طور پر بیسک اکسائز ڈیوٹی (بی ای ڈی)، 21 مئی کو پٹرول اور ڈیزل پر بالترتیب 1.40 روپئے اور 1.80 روپئے فی لیٹر تقسیم عمل میں آئی۔ 21 مئی کے بعد مرکز اور ریاستوں کے درمیان پٹرول پر فی لیٹر 1.40 روپئے اور ڈیزل پر 1.80 روپئے حصہ داری رہی۔ اب بات کرتے ہیں ایڈیشنل اکسائز ڈیوٹی (روڈ اینڈ انفراسٹرکچر سیس) کی ، اس ضمن میں ہم نے سطور بالا میں آپ کو بتایا کہ یہ ایسا سیس ہے جو مرکز، ریاستوں کے ساتھ نہیں بانٹتا۔ واضح رہے کہ21 مئی کو یہ ٹیکس پٹرول پر 13 روپئے فی لیٹر اور ڈیزل پر فی لیٹر 8 روپئے رہا۔ 21 مئی کے بعد یہ ٹیکس یا ڈیوٹی پٹرول پر فی الحال 5 روپئے اور ڈیزل پر 2 روپئے ہوگی۔ اگر ہم تمام اکسائز ڈیوٹیز کا جائزہ لیں گے تو 21 مئی کو پٹرول پر فی لیٹر 27.90 روپئے اور ڈیزل پر فی لیٹر 21 اعشاریہ 80 روپئے تھی، لیکن 21 مئی کے بعد تمام اکسائز ڈیوٹیز پٹرول پر فی لیٹر 19.90 روپئے اور ڈیزل پر 15.80 ہوگئے۔ اگر ہم مرکز اور ریاستوں کے درمیان محاصل سے ہونے والی آمدنی کی حصہ داری کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ مرکز محاصل سے حاصل ہونے والی 59% آمدنی اپنے پاس رکھتا ہے اور مابقی 41% آمدنی ریاستوں میں بانٹ دی جاتی ہے۔ یہ بات فینانس کمیشن کی جانب سے تعین کردہ فیصد کے مطابق ہم نے آپ کو بتائی ہے۔ تمام ریاستیں مشترکہ طور پر پٹرولیم مصنوعات پر جو بھتہ حاصل کرتی ہیں، وہ پٹرول پر فی لیٹر 57.4% پیسے اور ڈیزل پر فی لیٹر 73.8% پیسے بنتے ہیں۔ اس میں کوئی قابل لحاظ نفع یا نقصان نہیں پایا جاتا اور یہ پیسہ ریاستیں بیسک اکسائز ڈیوٹی کے ذریعہ حاصل کرتی ہیں۔ آمدنی کا جو حقیقی ذریعہ ہوتا ہے تو بانٹی جانے والی اکسائز ڈیوٹیز نہیں ہوتی۔ وزیر فینانس نے اس طرح کے محاصل زائد از 18 روپئے بڑھاکر 21 مئی 2022ء کو اُن میں پٹرول پر فی لیٹر 8 روپئے اور ڈیزل پر فی لیٹر 6 روپئے تک کمی کی۔ اسی لئے میں اسے یہی کہوں گا کہ آپ نے عوام کو لوٹا بہت اور دیا کم۔
ویاٹ اصل آمدنی
یہ یقینی بات ہے کہ ریاستیں، مرکز کی جانب سے پٹرول اور ڈیزل سے حاصل کردہ آمدنیوں میں سے عملی طور پر کچھ حاصل نہیں کرتیں۔ اُن کی آمدنی کا اصل ذریعہ پٹرول اور ڈیزل پر نافذ کردہ اضافہ قدر ٹیکس یا ویاٹ ہے (ریاستوں کیلئے آمدنی کا دوسرا ذریعہ شراب پر عائد محاصل ہیں) یہاں یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ ریاستیں جملہ آمدنی کے متناسب اپنے وسائل رکھتی ہیں، وہ اب لڑکھڑانے لگے ہیں اور ان میں مسلسل کمی آتی جارہی ہے۔ ایسے میں ریاستوں کو پٹرول اور ڈیزل پر اضافہ قدر ٹیکس میں کمی کی نصیحت ایسے ہی ہے جیسے ریاستوں کو یہ کہنا کہ وہ خود گداگر بن جائیں۔ یاد رکھئے! مرکز اور ریاستوں کے تعلقات خراب ہوں اور آمدنی کی مساوی تقسیم عمل میں نہ آئے تو اس کا خمیازہ ملک کو بھگتنا پڑتا ہے، اس لئے مرکز ، ریاست کے درمیان محاصل کی حصہ داری کا دوبارہ جائزہ لینا ضروری ہے۔