پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، حکومت کا فائدہ

   

ایلا پٹنائک
پٹرول اور ڈیزل کی چلر قیمتوں میں گزشتہ کئی ہفتوں سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کے بعض علاقوں میں پٹرول کی چلر قیمت فی لیٹر 100 روپے سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ جہاں تک عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کا سوال ہے طلب میں اضافے کے باعث قیمتیں بھی بڑھی ہیں اور مودی حکومت کے ساتھ ساتھ بی جے پی قائدین کا دعویٰ ہیکہ عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافے کے باعث ہی ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی چلر قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ان قیمتوں کا بغور جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ پٹرول کی ریٹیل قیمت میں ٹیکسوں کا ایک بہت بڑا حصہ ہوتا ہے۔ جب ٹیکس یا محاصل سے حاصل ہونے والی آمدنی متاثر ہوتی ہے اور خاص طور پر ہم سب نے دیکھا کہ کووڈ ۔ 19 وباء کے دوران ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی شدید متاثر ہوئی۔ ایسے میں مودی حکومت نے اس نقصان کی پابجائی کے لئے مارچ 2020 اور پھر مئی 2020 میں پٹرول اور ڈیزل پر اکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کردیا۔ صارفین نے اکسائز ڈیوٹی میں اضافے کا درد محسوس اس لئے نہیں کیا کیونکہ عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتیں اچانک گر گئی تھیں۔ کورونا وائرس کی عالمی وباء کے نتیجہ میں عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود ہمارے ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ پٹرول اور ڈیزل کی فروخت سے جو آمدنی ہوئی اسے حکومت نے اکسائز ڈیوٹی میں اضافے کے برعکس اڈجسٹ کردیا تاکہ حکومت کی خراب معاشی حالت کو ایک سہارا فراہم کیا جائے۔

بہت زیادہ اکسائز ڈیوٹی کے دو اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اول یہ کہ حکومت کی جانب سے اکسائز ڈیوٹی میں جو خطرناک اضافہ کیا گیا اس نے صارفین کے جیبوں پر اثر ڈالا اور شدید مہنگائی کا بھی یہ باعث بن سکتا ہے۔ حالیہ ہفتوں کے دوران خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور وہ بھی اکسائز ڈیوٹیز بڑھانے کے درمیان ہو تب پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنا ہے۔ یاد رکھیئے تیل کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی بھی بڑھ جاتی ہے اور آج ملک میں یہی ماحول ہے۔ یہ دو طرح کے چیانلوں کے ذریعہ ہوسکتا ہے ایک راست اور دوسرا بالراست جہاں تک راست کا سوال ہے کنزیومر پرائز انڈکس باسکٹ میں خام تیل کی مصنوعات کو فیول، لائٹ اور حمل و نقل و مواصلات کے زمرہ میں رکھا گیا ہے اور بالراست کا جہاں تک تعلق ہے اس میں حمل و نقل کی بہت زیادہ قیمتیں ہیں جو فیول کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ہوتی ہیں۔ اگر آپ دیکھیں تو آخر الذکر سے دوسری اشیا یا مصنوعات کی قیمتوں پر اثر پڑتا ہے جس میں سبزیاں، انڈے، گوشت، دودھ سے لے کر سمنٹ، کھاد، کیمیائی اشیاء وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں تک کہ خدمات کی قیمتیں بھی فیول کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجہ میں بڑھ سکتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس سے پٹرولیم مصنوعات پر مالی انحصار بھی بڑھ جاتا ہے۔ اگر حکومت اپنی آمدنی میں اضافہ کرنا چاہتی ہے تو اس کے لئے پٹرول اور ڈیزل اہم احداف ہیں وہ بہ آسانی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے اپنی آمدنی بڑھا دیتی ہے۔ ان حالات میں حکومت کو چاہئے کہ اپنے مالی خسارہ کو پاٹنے یا کم کرنے کے لئے تیل پر اپنا انحصار کم کردے اور آمدنی کے دوسرے وسائل یا ذرائع پر توجہ دیں۔
آر بی آئی کی ایم پی سی نے خام تیل کی قیمتوں میں اضافے اور پٹرول اور ڈیزل پر بالواستہ محاصل میں غیر معمولی اضافے کے مرتب ہونے والے اثرات اور خاص طور پر مہنگائی میں ہونے والے اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایم پی سی نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ پٹرول اور ڈیزل پر عائد بہت زیادہ بالراست محاصل میں کمی کرے تاکہ ملک میں جو مہنگائی بڑھ رہی ہے اس پر قابو پایا جاسکے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران حکومت کو جو آمدنی حاصل ہوئی ہے اس کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ تیل حکومت کے لئے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بنا ہے۔ تیل کے شعبہ سے ٹیکس آمدنی کا جو شیر ہے اس کے تعلق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حکومت کے جی ٹی آر (گراس ٹیکس ریونیو) بھی بڑھ گیا ہے۔ سال 2014 اور 2016 کے درمیان جبکہ عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتیں گر رہی تھیں ہماری حکومت نے کئی موقعوں پر پٹرول اور ڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا۔ حکومت کی جانب سے آمدنی کے لئے تیل کے شعبہ پر انحصار کا جہاں تک سوال ہے آئندہ سال بھی حکومت آمدنی کے لئے اسی شعبہ پر انحصار کرے گی یا اس کا امکان پایا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت پٹرول کی قیمتوں پر کنٹرول سے گریز کررہی ہے۔ ہندوستان تیل کی اپنی ضروریات کے لئے 85 فیصد تیل درآمد کرتا ہے اور اسی وجہ سے اندرون ملک تیل اور ڈیزل کی قیمتیں عالمی سطح پر تبدیل ہونے والی قیمتوں کے پیش نظر بڑھائی جاتی ہے لیکن یہ بات سمجھ سے قاصر ہے کہ حکومت عالمی سطح پر فیول کی قیمتوں میں کمی کے باوجود ملک میں تیل اور ڈیزل کی ریٹیل قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرتی جارہی ہے۔ آپ کی اطلاع کے لئے یہ بتادوں کہ حکومت اڈمنسٹرڈ پرائز میکانزم (اے پی ایم) کے تحت پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کا تعین کیا کرتی تھی اور یہ طریقہ 1975 سے اپنایا جارہا تھا لیکن بڑھتی مسابقت کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لئے حکومت نے یکم اپریل 2002 سے اے پی ایم کو ختم کردیا۔ اس طرح پٹرول کی قیمتوں کے تعین کا طریقہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اے پی ایم کے طریقہ کار کو ختم کئے جانے کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین عالمی قیمتوں کے مطابق ہونے کی توقع تھی لیکن حکومت نے پٹرول، ڈیزل، کیروسین اور ایل پی جی کی قیمتیں طے کرنی شروع کردیں تاکہ عالمی بازاروں میں انتہائی غیر یقینی کی صورتحال کے بیج ملک میں قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس طریقہ کار کے تحت ڈیزل اور کیروسین پر سبسیڈیز یا رعایتی قیمتیں دی جانے لگیں۔

قیمتوں پر کنٹرول کے نظام نے آئیل مارکٹنگ کمپنیز کی مالی حالت پر اثر ڈالنا شروع کیا ساتھ ہی حکومت کی مالی حالت بھی متاثر ہونے لگی۔ سال 2010 میں ماہرین کے گروپ کی سفارشات پر پٹرولیم مصنوعات، پٹرول کی قیمتوں کو مارکٹ کے مطابق طے کرنے کے ایک مربوط نظام کو اپنایا گیا۔ تاہم 2014 میں حکومت نے ڈیزل کی قیمتوں پر سے اپنا کنٹرول ہٹا لیا تب سے ہی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں عالمی مارکٹ کے مطابق رکھی جارہی ہیں۔ آئیل مارکٹنگ کمپنیز عالمی سطح پر پٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی بنیاد پر ملک میں بھی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کا تعین کرتی ہیں یا اس پر نظرثانی کرتی رہتی ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ 2040 تک دنیا میں تیل کی سب سے زیادہ ضرورت کسی اور ملک کو نہیں بلکہ ہندوستان کو ہوگی۔ ویسے بھی ہندوستان قابل تجدید توانائی کے وسائل کی سمت توجہ مرکوز کیا ہوا ہے لیکن اس معاملہ میں بھی کاربن محاصل رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اگر حکومت متبادل توانائی کے وسائل جیسے قدرتی گیس اور شمسی توانائی کو فروغ دینا چاہتی ہے تو اسے اس ضمن میں مختلف مراعات کا اعلان کرنا چاہئے۔ حکومت نے ملک کے تیل اور گیس کی بنیادی سہولتوں کے مستحکم کرنے کے لئے اقدامات کا اعلان کیا ہے اور وہ ملک کی توانائی باسکٹ میں قدرتی گیس کے حصہ کو 6.3 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے کی سمت کام کررہی ہے۔ ایک اور شعبہ جو فیول پر انحصار کرنے میں مدد کرسکتا ہے وہ ہے الیکٹرک وہیکلس کے استعمال کا فروغ ۔ اس طرح کی گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے کی خاطر مراعات کا اعلان کرنا چاہئے۔ اس سے نہ صرف فیول پر انحصار کم ہوگا بلکہ ہمارا ملک جو فضائی آلودگی پر قابو پانے کی کوششیں کررہا ہے اس میں بھی مدد ملے گی۔ بجٹ میں یہ بھی اعلان کیا گیا کہ پرانی خانگی اور کمرشیل گاڑیوں کو مرحلہ وار انداز میں سڑکوں سے ہٹا دیا جائے گا، یعنی 15 اور 20 سال سے زائد عرصہ استعمال کی گئی گاڑیوں کو ٹھکانے لگانے کا بھی منصوبہ ہے۔ اس طرح کی گاڑیوں کو ہٹادیئے جانے سے ماحول دوست اور فیول کی بچت کرنے والی گاڑیوں کے لئے راہ ہموار ہوگی اور کثیر امپورٹ بل بھی کم ہو جائے گا۔