پڑھائی کیسے کریں ؟

   

پیارے بچو! آپ کے ذہن میں یہ بات آرہی ہوگی کہ پڑھائی (Study) ایک انفرادی معاملہ ہے، ایک طریقہ جو کسی فرد کیلئے فائدہ مند ہو، یہ ضروری نہیں کہ دوسرے کیلئے بھی وہ یکساں مفید ہو، اس کے علاوہ ہوسکتا ہے کہ ایک مضمون کی اِسٹڈی کا طریقہ دوسرے مضمون کیلئے اتنا بہتر نہ ہو۔ یہ سب درست ہے لیکن آپ کو یہ جان لینا چاہئے کہ اسٹڈی ایک فن ہے۔ اگر آپ اس کے عام اُصولوں سے واقف ہوجائیں تو آپ اس کی روشنی میں مطالعے کیلئے بہتر سے بہتر طریقہ تیار کرسکتے ہیں۔ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ مطالعے کے موثر طریقوں سے ناواقفیت کی وجہ سے بہت زیادہ ذہین طلبہ بھی امتحان میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ اس بات میں دیئے گئے طریقے اصول ِ نفسیات اور تجربات پر مبنی ہے۔
کلاس کی حاضری: اچھے نشانات سے کامیابی کا انحصار کلاس کی حاضری پر بھی ہے۔ بعض اساتذہ کلاس میں حاضری نہیں لیتے، اس کے معنی یہ نہیں کہ ان کے درس میں حاضر رہنا ضروری نہیں۔ اگرچہ کہ نصابی کتابوں کا پڑھ لینا بعض مرتبہ کلاس کے درس کا بدل ہوسکتا ہے لیکن کلاس میں سبق کے دوران کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اسی وقت یا سبق کے بعد اساتذہ سے پوچھ کر سمجھا جاسکتا ہے۔ کتاب کے پڑھ لینے سے یہ بات حاصل نہیں ہوسکتی۔ پڑھاتے ہوئے اساتذہ اپنے مطالعے اور تجربات کی روشنی میں سبق سے متعلقہ مفید باتیں بھی بتاتے جاتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی سبق کا تسلسل کئی دن چلتا ہے یا ابتداء میں بتائی ہوئی بنیادی باتوں کا تعلق مہینوں چلتا رہتا ہے جو طلبہ ابتداء یا درمیان میں غیرحاضر رہتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ انہیں آگے ایک لفظ بھی سمجھ میں نہ آئے۔ اس کے علاوہ اساتذہ غیرحاضر طلبہ کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ بعض اوقات وہ ایسے طلبہ کو امتحان سے روک بھی دیتے ہیں۔ مختصر! یہ کہ کلاس سے غیرحاضری طلبہ کیلئے بہت نقصان دہ ہے۔
منصوبہ بندی اور نظام الاوقات: اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ طلبہ انفرادی پڑھائی کیلئے کوئی منصوبہ ہی نہیں بناتے اور نہ پابندی سے مطالعہ کرتے ہیں بلکہ ان کا مطالبہ دل کے چاہنے پر ہوتا ہے۔ جی چاہا تو کوئی دلچسپ عنوان مسلسل تین چار دن لکھ پڑھ لیتے ہیں، اس کے بعد کئی دنوں تک انفرادی مطالعہ سے بھاگتے ہیں۔ طلبہ کیلئے منصوبہ بند اسٹیڈیز کی راہ میں آنے والی عام رکاوٹوں میں کھیل کود کی مشغولیات، ماحول کا نیا پن، دوست احباب، تقاریب وغیرہ ہیں۔ آپ کا وقت لینے والی ان تمام مصروفیات میں توازن ہونا چاہئے، اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے آپ اپنی تعلیم کے بنیادی مقصد کو سمجھیں۔ عام طور پر اعلیٰ تعلیم کا مقصد پیشہ ورانہ قابلیت حاصل کرنا ہے مثلاً ڈاکٹر، انجینئر یا سائنس داں، پروفیسر بننا ہوتا ہے۔ اگرچہ کھیل کود دوست احباب اور تقاریب میں شرکت اور مختلف عام عنوانات پر بحث و مباحثے طلبہ کی زندگی کے لازمی حصے مانے جاتے ہیں، لیکن تعلیم کے بنیادی مقصد کے مقابلے میں دیکھا گیا تو ان کا دوسرا درجہ ہے۔