غضنفر علی خان
آخر ہماری خود ساختہ سکیولر پارٹیاں کب ملک کی سیاسی صورتحال پر بیدار ہوں گی اور کب انہیں یہ احساس ہوگا کہ اب ملک میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ہریانہ اور مہاراشٹرا کے انتخابات اِک اور نیا زخم دے گئے اور ملک کی سیاسی پارٹیاں کف افسوس ملتی رہ گئیں، انہیں سمجھ نہیں آرہا ہے کہ آخر ملک میں آزمودہ سکیولرازم کیوں اس طرح پے در پے شکست کھارہا ہے۔ ایک طرف ان پارٹیوں کی یہ بدحالی اور دوسری طرف ہندوتوا کی طاقتوں کا عروج ہمارے وجود کیلیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ تشویش کی بات ہے کہ ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا جس میں اشارہ ہی صحیح یہ مل سکے کہ ایک دن وہ ضرور آئے گا جو ہندوستان کی عظمت گزشتہ کو بحال کرسکے گا، دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ کیوں ہندوستان کا سکیولر ووٹر ہندوتوا کی تحریک اور اس کے پروپگنڈہ سے حرف چند برسوں کے دوران اتنا متاثر ہوگیا ہے کہ اس کے آگے ہندوتوا کی تنظیمیں ہی اس کا واحد انتخاب ہے یا پھر ملک کے عوام خصوصاً ہندو اکثریت یہ سمجھنے لگی ہے کہ کیوں 90% ہندو آبادی والے ہمارے ملک میں کوئی ہندو راج نہیں ہوسکتا اگر واقعی عوام کی رائے ہندوتوا کے زیر اثر آگئی ہے تو پھر سکیولر پارٹیاں اس موزی مرض کا کیا کوئی علاج و معالجہ پیش کرسکتی ہے۔ آج وہ وقت آگیا ہے کہ ہم ہندوتوا کی تحریک کے خلاف نبردآزما ہوجائیں لیکن اس کے لیے ایک منظم و مضبوط اور شاہد متاثر کن قیادت کی ضرورت ہے جو ملک کے اندر یا اس کے سکیولر پارٹیوں کے اندر ہمیں دکھائی دیتی۔ اصل فرق یہ ہے کہ اب ہندوتوا کے نظریہ کو عوام نے بڑی حد تک قبول کرلیا ہے۔ سکیولرازم ان کے لیے ایک فرسودہ اور گھسی پٹی چیز بن کر رہ گیا ہے اور شاید یہ بھی درست ہے کہ جس ہندوستان میں آزادی کے بعد 70 برس سے جی رہے ہیں اس کے لیے بڑی سی بڑی قربانی دے سکتے ہیں وہ ایک ہندو دیش بن رہا ہے۔ خواہ کسی کو یہ بات پسند ہوکہ نہیں لیکن اس سچائی سے اب مزید انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستانی ووٹرس کا رجحان بدل گیا ہے۔ ہر انتخابات کے بعد ہندوتوا کی طاقتیں مزید طاقتور ہوتی جارہی ہیں۔ 1914ء سے لے کر کل منعقدہ مہاراشٹرا اور ہریانہ کے انتخابات میں بی جے پی کا ووٹ مزید بڑھ گیا ہے۔
دوسری طرف کانگریس اور دیگر سکیولر جماعتوں کے ووٹ کا حصہ کم ہوتا جارہا ہے۔ دونوں گروپ کے اس جیسے مقابلہ میں ہمیشہ سکیولر پارٹیوں کو عزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے۔ آخر کب یہ ختم ہوگا اور اب تو یہ امید بھی ختم ہوچکی ہے کہ عنقریب ہندوستان پھر سے جمہوری اور سکیولر ملک بنے گا۔ عوام خود یہ نہیں چاہتے ہوئے بھی کہ سکیولرازم کا خاتمہ ہو مجبوراً اس خاتمہ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس کو بدلنے کے لیے یا تو پھر کوئی مہاتما گاندھی چاہئے یا پھر کوئی ایسی شخصیت کی اُفق سیاست پر نمودار ہوجو عوام کی سوچ کو بدل سکے۔ اس گمبھیر اندھیرے میں اگر کانگریس یہ سمجھتی ہے کہ وہ چند برس پہلے والے ہندوستان کو بھر زندہ کرسکتی ہے تو یہ خلاف حقیقت بات ہوگئی۔ موجودہ کانگریس کی لیڈر سونیا گاندھی بھی بڑی تیز رفتاری کے ساتھ اپنے خول میں سمٹ کر رہ گئی ہیں۔ ان کے صاحبزادے راہول گاندھی بھی اپنی سیاسی تقدیر آزماچکے ہیں۔ ان کے اطراف پھیلے گہن کو ختم نہ کرسکے، پرینکا گاندھی اس پرندہ کے مانند ہوگئی ہے جو طاقت پرواز تو نہیں رکھتا لیکن پر پھڑپھڑانا جانتا ہے، وہ پر ہی کیا جو طاقت پرواز نہ دے سکے۔ اب رہا سوال ملک کی دوسری پارٹیوں کا تو یہ اپنے دائرے اثر کو کبھی بڑھا نہ سکیں۔ شمالی ہند کی ریاستوں میں اس وقت اُمید کی ایک کرن رہ گئی تھی جب کہ لالو پرساد یادو، ملائم سنگھ یادو اور دیگر نے اس چراغ کے مانند کچھ روشنی کی تھی جو ہندوتوا کے طوفان کے آگے ٹھہر نہ سکے اور ایک کمزور چراغ کی طرح گل کردیئے گئے ملک کی کمیونسٹ پارٹیاں بھی صرف خم ٹھوکتی رہ گئیں۔ ان پارٹیوں نے نہ کبھی اپنی وسعت پذیری کا مظاہرہ کیا اور نہ کبھی کل ہند سطح پر اپنا کوئی وجود منوا سکے۔ کمیونسٹ پارٹیوں کی اس حالت نے ہندوتوا کی طاقت کو مزید مضبوط کیا۔ کانگریس اور سکیولر پارٹیاں تو اب برائے نام اپنا وجود رکھتی ہیں۔ ان میں نہ تو ملک کی سیاسی حالت پر اثر انداز ہونے کی طاقت ہے اور نہ بحیثیت تنظیم و جماعت اتنا وسیع تنظیمی ڈھانچہ ان کے ہاں موجود ہے جو سارے ملک میں کام کرسکے۔ ابھی بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ جنوبی ہندوستان میں ہندوتوا کی طاقتوں کو وہ کامیابی نہ مل سکی جس کے لیے یہ طاقتیں زور لگارہی ہیں۔ جنوبی ریاستوں میں ابھی بھی سکیولر ووٹ باقی ہیں اور یہاں کبھی بھی ہندوتوا کی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی۔ خود ہماری ریاست تلنگانہ میں علاقائی جماعت ٹی آر ایس اپنا ایک مضبوط وجود رکھتی ہے۔ یہی بات کیرلا کے کمیونسٹ اور ڈیموکریٹک محاذ کے بارے میں کہی جاسکتی ہے کہ وہاں بھی ہندوتوا اپنا جھنڈا نہیں لہراسکتی۔ ٹاملناڈو میں دونوں مقامی پارٹیاں یا زیادہ بہتر علاقائی پارٹیاں اپنا ایک مضبوط وجود رکھتی ہیں۔ کرناٹک میں البتہ ہندوتوا کی طاقتوں کو بڑھاوا ملا ہے۔ ان علاقائی پارٹیوں کے علاوہ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس حال حال تک ایک ناقابل شکست سیاسی پارٹی بنی ہوئی تھی لیکن پچھلے چند ماہ سے بی جے پی کی سازشوں اور ریشہ روانیوں کی وجہ سے ترنمول کانگریس بھی کمزور پڑگئی ہے۔ کچھ تو بی جے پی کی سازش کا نتیجہ ہے اور بہت کچھ خود ممتا بنرجی کی بعض نہایت نازک مسائل پر اختیار کردہ پالیسی ہے جو سکیولر پارٹیاں کمزور پڑی ہیں ان میں یو پی میں بہوجن سماج پارٹی کے حوالے کے بغیر کوئی بات کہنا نا انصافی کے مماثل ہے لیکن اترپردیش کی سیاست میں جن پارٹیوں نے سکیولرازم کا پرچم بلند کیا تھا ان سب کا وہی حشر ہوا جو بی جے پی یا ہندوتوا کی طاقتیں چاہتی تھیں۔ ریاستوں میں بی جے پی کے مقابلے پر کوئی نہ رہا اور وہ بلاکسی رکاوٹ کے آگے بڑھتی جارہی ہے۔ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ کوئی دوسری پارٹی بی جے پی کے خلاف اتنی طاقت اپنے اندر نہیں رکھتی ہے جو سکیولر انظریات کی تشہیر کرسکے یا عوام کا اس نظریہ پر دوبارہ اعتماد بحال کرسکے۔ رفتہ رفتہ یہ نظریات ہندوستان میں مختلف اقوام، عقائد، زبانوں، اور کلچر کے لوگ صوبوں سے مل جل کر کررہے ہیں بالکل غیر اثرانگیز ہوگیا ہے اور یہ بھی بڑی ناگواری کے ساتھ قبول کرنا پڑتا ہے کہ دیگر تمام پارٹیوں میں اتنا دم و خم بھی نہ رہا کہ کسی الیکشن کے بعد یہ کہا جاسکے کہ ’’مقابلہ تو دل ناتوان نے خوب کیا‘‘ اور رائے دہندے خود اپنی کوئی رائے نہیں رکھتے بلکہ انتخابات سے پہلے ہی ان کے ذہنوں میں یہ بات موجود رہتی ہے کہ فلاں پارٹی کا امیدوار الیکشن میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ایسی کئی مثالیں خود ہمارے شہر حیدرآباد میں ملتی ہیںجن میں کانگریس پارٹی کے ایک مخصوص امیدوار کے بارے میں علی الاعلان ان کے حلقہ کے رائے دہندے یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ ’’یار یہ امیدوار تو کامیاب نہیں ہوسکتا‘‘ عوام کیوں اس طرح پہلے ہی سے سونچنے لگی ہے اور اگر یہ بات درست ہے تو پھر چنائو کرانے کی حکومت زحمت ہی کیوں کرتی ہے یہ اور جمہوریت میں عام چنائو کا یہ انتہائی گراں سودا کیوں کیا جاسکتا ہے۔ ہر بات طے شدہ ہے تو پھر یہ نمائشی پسندی کیوں اور انتخابی مسائل پر یہ بحث و مباحثہ، پلیٹ فارم پر طویل تقاریر کس لیے۔ انتخابات عوامی روپئے پیسے سے منعقد کئے جاتے ہیں۔ بہتر تو یہ ہوگا کہ اس سارے عمل کو ملتوی کردیا جائے اور برسر اقتدار پارٹی کی جانب سے عوامی نمائندوں کو نامزد کیا جائے۔ عوام کیا چاہتے ہیں اور کیوں چاہتے ہیں یا تو ان دونوں پہلوئوں پر گہرے غور و خوص کی ضرورت ہے یا پھر انتخابی عمل کو سہل اور غیر جانبدار کرتے ہوئے عوامی نمائندوں کو منتخب کیا جانا چاہئے۔ اب تو یہ ڈر ہوگیا ہے کہ ہندوتوا کی طاقتیں فی الواقعی ایسی جمہوریت قائم کرنا چاہتی ہیں جن میں عوامی نمائندے منتخب نہیں بلکہ سرکاری طور پر نامزد کئے جائیں گے۔ ٭
