امولیہ گنگولی
الورکی ایڈیشنل ضلع جج سریتا سوامی نے پہلو خان قتل مقدمہ کے تمام 6 ملزموں کو ثبوتوں کے فقدان میں رہا کر دیا تو اسی وقت انصاف پسند طبقات نے اس کے خلاف آواز بلند کی تھی اور اس اندیشے کا اظہار کیا تھا کہ پولیس نے اس مقدمہ کی تحقیقات صحیح انداز سے نہیں کی ہے اور دانستہ طور پر ایسی کئی خامیاں چھوڑ ی گئی جن کی بنیاد پر ملزم بری ہو جائیں۔ یہ شبہ بھی ظاہر کیاگیا تھا کہ جیسے ملزموں اور پولیس کے درمیان کوئی ساز باز ہوئی ہو جس کے نتیجے میں ملزم بری ہو گئے۔اس کے بعد ہی فوری طور پر راجستھان کی گہلوت حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اس مقدمہ کی از سر نو تحقیق کروائے اور اگر سابق تحقیق میں خامیاں پائی جائیں تو تحقیقی عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ چونکہ اس سے قبل راجستھان پولیس نے پہلو خان اور ان کے بیٹوں کے خلاف ہی گائے کی اسمگلنگ کا مقدمہ درج کر لیا تھا اس لیے اس کی امید کم تھی کہ اس معاملے میںجلدی کوئی پیش رفت ہوگی لیکن اشوک گہلوت نے اعلان کیا کہ حکومت اس مقدمہ کی از سر نو تحقیقات کرو ائے گی اور فیصلہ آنے کے تین دن کے بعد ہی حکومت نے ایک ایس آئی ٹی تشکیل دے دی جس کو یہ ذمہ داری تفویض کی گئی کہ وہ مقدمہ کی از سر نو تحقیقات کرے اور اگر سابق تحقیقات میں خامیاں ہیں تو ان کو اجاگر کرے۔ اب اس نے اپنی تحقیقات مکمل کر لی اور84 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ راجستھان کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس بھوپیندر سنگھ کے حوالے کر دی ہے۔ایس آئی ٹی کی اس رپورٹ میں کئی نئے انکشافات ہوئے ہیں اور اس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہے کہ واقعی تحقیقی عہدیداروں اور ملزموں کے درمیان کوئی نہ کوئی ساز باز ہوئی ہوگی ورنہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ چار چار تحقیقی عہدیداروں میں سے کسی کی بھی تحقیق میں حقائق سامنے نہ آئیں اور ان کی رپورٹ ملزمو ں کے حق میں چلی جائے۔ جبکہ پوری دنیا نے وہ خوفناک منظر دیکھا تھا جب ہجوم نے 55 سالہ پہلو خان کو بھگا بھگا کر مارا تھا اور پھر دواخانہ میں ان کی موت ہو گئی تھی۔پہلو خان ایک ڈیری فارمر تھے۔ یعنی وہ گائے پالتے تھے اور ان کا دودھ نکال کر فروخت کرتے تھے۔ وہ اسمگلر نہیں تھے بلکہ خاندانی شخص تھے۔ لیکن اب بھی بی جے پی اور سنگھ پریوار کے لوگ ان کو گائے کا اسمگلر کہہ رہے ہیں۔ پہلو خان نے ایک بازار سے گائیں خریدی تھیں اور کاغذات کے ساتھ گھر واپس جا رہے تھے کہ بہرور کے نزدیک ان کی گاڑی کو گھیر لیا گیا اور ان کے کاغذات پھاڑ دیے گئے اور ان کو بری طرح زدوکوب کیا گیا تھا۔ایس آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پہلے تحقیقی عہدیداروں نے اس واقعہ کے تین دن بعد جائے واردات کا دورہ کیا۔ اس نے وہاں کی تحقیق کرنے کے لئے نہ تو فارنسک جانچ ٹیم کو طلب کیا اور نہ ہی ان دونوں گاڑیوں کی میکینکل جانچ کروائی جن میں پہلو خان گائے لے کر جا رہے تھے۔ ایس آئی ٹی کے مطابق پہلے تحقیقی عہدیدار نے جملہ 29 غلطیاں کیں۔دوسرے تحقیقاتی عہدیدار نے خامیوں سے پْر اس رپورٹ کو نظرانداز کیا اور تحقیق کی نگرانی بھی نہیں کی۔ تیسرے عہدیدار نے جائے واردات کا دورہ تو کیا لیکن اس نے گواہوں کے بیانات قلمبند نہیں کیے۔ اس نے سابق تحقیقاتی عہدیداروں کی خامیوں اور غلطیوں کو درست کرنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی۔ جبکہ چوتھے تحقیقاتی عہدیدار نے تمام ان چھ ملزموں کو جن کے نام پہلو خان نے انتقال سے قبل لیے تھے بغیر کسی ٹھوس وجہ کے رہا کر دیا۔ایس آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چھ ملزموں وپن یادو، رویندر یادو، کالو رام یادو، دیانند یادو، یوگیش کھاٹی اور بھیم راٹھی کے خلاف قتل کے علاوہ ڈکیتی، املاک کو نقصان پہنچانے اور دنگا فساد کا بھی مقدمہ قائم کیا جانا چاہیے۔ لیکن عدالت نے 14 اگست کو ان تمام ملزموں کو ثبوتوں کے فقدان میں رہا کر دیا۔اب جبکہ ایس آئی ٹی نے اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے اور سابقہ تحقیقی رپورٹوں میں خامیوں کو اجاگر کیا ہے تو اس کی بنیاد پر کم از کم دو کام فوری طور پر کیے جانے کی ضرورت ہے۔ پہلا یہ کہ ان ملزموں کو فوراً گرفتار کیا جائے، انھیں جیل میں ڈالا جائے اور تازہ ثبوتوں کی بنیاد پر ان کے خلاف مقدمہ قائم کیا جائے۔دوسرا کام یہ کہ جن چار تحقیقاتی عہدیداروں نے غلط تحقیق کی، جان بوجھ کر خامیاں چھوڑ دیں ان کے خلاف بھی کم از کم محکمہ جاتی کارروائی ضرور کی جائے اور ان سے پوچھا جائے کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا۔ ان عہدیداروں کی بھی تحقیق ہو اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کی جائے کہ کہیں انھوں نے ملزموں سے رشوت تو نہیں کھائی اور ان سے ساز باز تو نہیں کی۔ آخر کیا وجہ رہی کہ انھوں نے غلطیوں سے پْر تحقیقی رپورٹ بنائی اور ایسا ڈھیلا ڈھالا مقدمہ بنایا کہ ملزم خامیوں کا فائدہ اٹھا کر رہا ہوجائیں۔اس کی بھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں سابق وزیراعلیٰ وسندھرا راجے کی حکومت کی جانب سے عہدیداروں پر کوئی دباو تو نہیں تھا کہ وہ ایسا مقدمہ بنائیں کہ ملزم بری ہو جائیں۔ ہندوستان میں مذہب کے نام پر اور گائے کے تحفظ کے نام پر جو سیاست کی جا رہی ہے اس کے پیش نظر یہ کوئی بعید بھی نہیں ہے۔ اگر ایسا کوئی ثبوت ملے تو ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔گہلوت حکومت نے بہت اچھا کیا کہ اس واقعہ کی تحقیق کے لیے ایس آئی ٹی بنائی لیکن اب اس کا بھی امتحان ہے اور اسے اس امتحان میں کامیاب ہونا ہے۔ اس کا امتحان یہ ہے کہ وہ کارروائی کرے اور ملزموں کو پھر سے جیل میں ڈالے اور ان کے خلاف از سر نو مقدمے کا آغاز کرے۔ جب تک گہلوت حکومت ایسا نہیں کرتی اس پر متاثرین کا اعتماد بحال نہیں ہوگا۔٭
