سیاست فیچر
وزیراعظم نریندر مودی نے ٹی وی پر قوم سے خطاب میں پاکستان کے ناپاک عزائم کے بارے میں جو کچھ کہا اس سے اپوزیشن جماعتیں بھی اتفاق کرتی ہیں۔ مودی نے دعویٰ کیا کہ ہماری بہادر فوج نے پاکستانی علاقوں میں واقع دہشت گردوں کے اڈوں ان کے تربیتی کیمپوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا یقیناً ایسا ہونا بھی چاہئے۔ دہشت گردوں کے تربیتی مراکز کو تباہ کرنا اس لئے ضروری تھا کیونکہ وہاں ہندوستانی علاقوں میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کی انجام دہی کی تربیت دی جارہی تھی۔ ویسے بھی ہمارے وطن عزیز کو خارجی سطح پر جہاں پاکستان اور اس کے ناپاک عزائم رکھنے والے دہشت گردوں سے خطرات لاحق ہیں وہیں چین بھی مسلسل دراندازی میں مصروف ہے۔ بی جے پی کے لیڈر اور سابق رکن راجیہ سبھا سبرامنیم سوامی کا دعویٰ ہیکہ چین نے ہندوستان کے 2000 مربع کیلو میٹر علاقہ پر قبضہ کرلیا ہے۔ سبرامنیم سوامی کے اس دعویٰ کا مودی اور بی جے پی یا پھر آر ایس ایس کے کسی لیڈر کے پاس جواب نہیں ہے۔ بہرحال ہندوستان کو ایک طرف خارجی دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں (پاکستان) کے ناپاک عزائم سے خطرہ لاحق ہے تو داخلی طور پر بھی فرقہ پرست جماعتوں اور تنظیموں سے تعلق رکھنے والے غنڈوں ؍ دہشت گردوں سے ملک کے اتحاد و سالمیت کو سنگین خطرات لاحق ہیں جس طرح خارجی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن سندور شروع کیا گیا اسی طرح داخلی طور پر ملک کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں مصروف اور ہندوستانیوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے والے دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں کے خلاف بھی خصوصی آپریشن کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا آپریشن شروع کیا جاتا ہے تو کون کون اس آپریشن کی زد میں آئے گا سارا ہندوستان اچھی طرح جانتا ہے۔ آپ کو یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کیلئے سب سے بڑا خطرہ فرقہ پرست بنے ہوئے ہیں۔ اے پی کیو آر کی ایک رپورٹ میں جسے نیوز ٹوڈے چینل نے پوسٹ کیا ہے یہ انکشاف کیا گیا ہے۔ پہلگام دہشت گردانہ حملہ کے بعد مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہو حالانکہ یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہیکہ وہ مسلمانوں کے خلاف اس قسم کے فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی کے واقعات کا تدارک کرے۔ یہ رپورٹ سابقہ رپورٹ کا اپ ڈیٹ ورژن ہے جس میں 22 اپریل 2025 تا 8 مئی 2025ء تک پیش آئے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس مدت کے دوران مسلمانوں کے خلاف 184 نفرت انگیز جرائم کا ارتکاب کیا گیا اور ان میں 106 واقعات پہلگام دہشت گردانہ واقعہ سے جڑے ہوئے ہیں۔ فرقہ پرست کی جانب سے برپا کئے گئے تشدد میں کم از کم 316 افراد متاثر ہوئے۔ یہ اعدادوشمار ایک اندازہ ہے اور حقیقی نمبر تو اس سے کہیں زیادہ ہوسکتے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات کے معاملہ میں اترپردیش سرفہرست ہے۔ دوسرے نمبر پر بہار، تیسرے نمبر پر مہاراشٹرا ہے جبکہ اس کے بعد دارالحکومت دہلی اور تلنگانہ کا نمبر آتا ہے۔ کرناٹک، پنجاب، چندی گڑھ اور مغربی بنگال میں اور دیگر ریاستوں نے سنگین واقعات کا مشاہدہ کیا ہے۔ نفرت پر مبنی جرائم سے اس بات کے اشارہ ملتے ہیں کہ یہ مقامی نہیں بلکہ قومی سطح پر مسلم دشمنی کا زہر گھولنے کی وجہ سے پیش آئے۔ آپ کو بتادیں کہ ہماچل پردیش میں 6، پنجاب میں 4، یریانہ میں 9، دہلی میں 6، راجستھان میں 3، مدھیہ پردیش میں 20 مہاراشٹرا میں 24، کرناٹک میں 7، کیرالہ میں 2، کشمیر میں 2، چندی گڑھ میں 6، اتراکھنڈ میں 24، اترپردیش میں 43، بہار میں 6، آسام میں ایک، مغربی بنگال میں 9، اوڈیشہ میں ایک، تلنگانہ میں 3، آندھراپردیش میں ایک اور دوسرے مقامات پر مسلمانوں کے خلاف تشدد کے چار واقعات پیش آئے۔ رپورٹ کے مطابق 84 نفرت انگیز تقاریر ؍ بیانات، 34 حملے، 19 غنڈہ گردی کے واقعات، 3 قتل ایسے واقعات ہیں جو نفرت پر مبنی جرائم کے مختلف زمروں میں آتے ہیں۔ اکثر واقعات نفرت پر مبنی مختلف قسم کے جرائم کا مرکب ہے۔ مثال کے طور پر قتل کے 3، گالی گلوچ، فحش کلامی کے 7، نفرت پر مبنی بیانات یا تقاریر کے 84، دھمکیوں کے 14، غنڈہ گردی کے 19، حملوں کے 39، ہراسانی کے 42 اور ڈرانے دھمکانے کے 64 واقعات کا اندراج عمل میں آیا۔ 22 اپریل کو یو پی کے مظفرنگر میں ایک مسلمان کے مکان پر قابل اعتراض نعرے لکھے گئے۔ غنڈہ گردی کی گئی اور دھمکیاں دی گئیں۔ 22 اپریل کو ہی تلنگانہ کے ضلع سنگاریڈی میں ہندوتوا کی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ایک مدرسہ پر حملہ کیا۔ غنڈہ گردی کی نفرت انگیز تقاریر کی گئیں۔ بیانات جاری کئے گئے اور ڈرایا دھمکایا گیا۔ 23 اپریل کو بہار کے پٹنہ میں مظاہرین نے مسلمانوں کے خلاف قابل اعتراض نعرے لگائے۔ شستریہ گاؤ رکھشک دل ارکان نے اترپردیش کے آگرہ میں ایک مسلم نوجوان کا قتل کردیا۔ پہلگام تشدد کے جواب میں فرقہ پرستوں نے یہ کارروائی کی جس میں شہید مسلم نوجوان کا چچازاد بھائی زخمی ہوا۔ چندی گڑھ میں 23 اپریل کو ایک کیاب ڈرائیور نے کشمیری خاتون پر حملہ کیا۔ 23 اپریل کو ہی چندی گڑھ کے یونیورسل گروپ آف انسٹی ٹیوشنس میں کشمیری طلبہ کی ان کے ہاسٹل میں حملہ کا نشانہ بتایا گیا جبکہ وہاں موجودہ سیکوریٹی اہلکار خاموش تماشائی بنے رہے۔ 23 اپریل کو ہی ہماچل پردیش کانگرا میں کشمیری طلبہ کو ان کے ہاسٹل میں حملہ کا نشانہ بنایا گیا۔ ہاسٹل میں ان کے کمروں کے دروازے اور کھڑکیاں توڑی گئیں۔ 23 اپریل کو اسی طرح کے 15 واقعات پیش آئے۔ اتراکھنڈ کے دہرادون میں ہندورکھشا دل نے کشمیری مسلمانوں کو ریاست سے فوری نکل جانے یا پھر دل کے کارکنوں کے ہاتھوں اس کا خمیازہ بھگتنے کیلئے تیار رہنے کا انتباہ دیا۔ اسی دن اتراکھنڈ کے پوری گڈھوال میں بی جے پی لیڈر پشکر سنگھ دھامی نے نفرت انگیز تقریر کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ کھرار چندی گڑھ کا ایک علاقہ ہے جہاں ہریانہ کے ایک مقامی نوجوان نے کشمیری طلباء سے لفظی لڑائی کی 23 اپریل کو اترپردیش کے غازی آباد میں گستاخ و ملعون یتی نرسنگھانند نے ایک مذہبی پروگرام میں دین اسلام کے خلاف بکواس کی۔ اسی دن اترپردیش کے الہ آباد (موجودہ نام پریاگراج) میں کئی کشمیری طلبہ اور ملازمین سے کہا گیا کہ وہ علاقہ سے نکل جائیں اس کیلئے سیکوریٹی کا بہانہ بنایا گیا۔ ہندوتوا تنظیموں کی دھمکیوں اور خوف سے کشمیری طلبہ شہر سے تخلیہ پر مجبور ہوگئے۔ اس کے علاوہ 23 اپریل کو ہی اتراکھنڈ کے مسوری میں بجرنگ دل کے کارکنوں نے دو مسلم کشمیری شال تاجرین کو شدید زدوکوب کیا۔ اسی طرح بجرنگ دل کارکنوں نے اترپردیش کے علیگڑھ میں ایک مسلم شربت فروخت کرنے والے کی دکان میں توڑپھوڑ کی۔ کولکتہ، جودھپور، موہالی، انبالہ، کروکشترا، پٹھان کوٹ، دہرادون، چندی گڑھ، مہیش تالاب (مغربی بنگال) ہاتھرس (یوپی)، آسام، ہرنگھاٹ (مغربی بنگال)، بی ایف آئی ٹی کالج اور ڈون پی جی کالج دہرادون (میں کم از کم 20 کشمیری طلبہ ہندوتوا تنظیموں کے تشدد کے خوف سے شہر چھوڑ کر فرار ہوگئے) ممبئی میں 24 اپریل کو 9 بی جے پی ورکروں نے مسلم ورکروں پر حملہ کیا۔ ہریانہ کے ہسار مہاراشٹرا کے تھانہ، ہماچل پردیش کے ناہان، کھنڈوا (ایم پی)، بھاگلپور (بہار)، جنوبی کشمیر، احمد نگر (مہاراشٹرا)، مدھیپورہ (بہار)، بھوپال، اندور فتح آباد، سیہور، جئے پور، دودھ بھدروا (ایم پی)، کا سرگڈ (کیرالا) غازی آباد، گونا، کیرانہ، رائے گڑھ، فتح پور، مہاراج گنج، سہارنپور، ورندوان، میرٹھ، متھرا، جالندھر، سانتاکروز، منگلورو (کرناٹک)، شاملی، اوکھلہ، ناگپور، وارانسی، شاپور، گیا، لکھنؤ، حیدرآباد، سنبھل پور، ارن ملا، ہوڑہ، ہبلی، بٹنہ، دہرادون، نینی تال، پال گھر، مالیگاؤں، بریلی، ہلدوانی، پلی بھیت، سونھبدرا، چھترپور، اودھم سنگھ نگر، بنکورہ، لاتور، بیدر، ردراپور، کوٹہ، دکھشن کنڑا، مایوروہار، ہردوار، نرمداپورم اور ساگر جیسے مقامات پر مسلمانوں بالخصوص کشمیری طلبہ اور کشمیری شال کے تاجرین پر حملے کئے گئے۔ایسے میں حکومت کو چاہئے کہ فرقہ پرست تنظیموں اور ان کے کارکنوں نے داخلی سطح پر جو دہشت گردی طاری کی ہے اس کا انسداد کرے۔